کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 332
بیوی کی بیوی۔ اسی طرح وہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی یا پوتی کی عمر کی کہتا ہے، حالانکہ جوان آدمی اپنے سے اتنی بڑی عمر کی عورت سے نکاح کرے، جس سے اولاد پیدا ہو سکے تو یہ قانون قدرت کے خلاف بھی نہیں ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا جواب عقلی طور پر قریب ہی گزر چکا ہے۔ سماجی دوستو! دیکھو ہم کیسی کشادہ پیشانی سے آپ کے مطاعن اور گالیاں برداشت کرتے ہیں ، ذرا ہماری طرف سے بھی اس کا الزامی جواب ٹھنڈے دل سے سننا اور ناراض نہ ہونا۔
وید ارتھ پرکاش باب سوم کو بنظر غور ملاحظہ کرنا جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ وید منتروں میں باپ اور بیٹی کی مجامعت کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ اس پر اتنی طویل بحث کی ہے کہ سوامی جی کی پردہ پوشی کی تاویلات اور دیگر آریوں کے توہمات کو باطل قرار دیا گیا ہے اور پر زور دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ باب اپنی سگی بیٹی سے محبت کر کے اولاد پیدا کرے۔ کیسی حیا سوز اور شرم ناک تعلیم ہے کہ جس کے سننے کو دل برداشت نہیں کر سکتا۔ اس باب کی عبارت کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے، ملاحظہ ہو:
باپ اور بیٹی کی مجامعت کو جائز قرار دیا گیا ہے، وہ منتر بہ الفاظ اردو یہ ہے: ’’شاسد دہنر دہتر نپتیم گاد وِدوان رتسیہ وی دِھتم سپریَن، پتایتر دہتوہ سیکم رنجنت سم شکمین منساد دھنوے۔‘‘(رگ وید منڈل ۳ سوگت ۳۱ منتر ۱)
اس منتر کا ترجمہ مع حواشی سوامی دیانند جی سرسوتی مہاراج نے دو جگہوں پر کیا ہے، ایک جگہ منتر کے ما تحت اور دوسری جگہ رگ وید آدی بھاشیہ بھومکا صفحہ ۳۰۳ دونوں جگہ ایک ہی مطلب ہے۔ پھر سوامی دیانند جی کا ترجمہ نقل بھی کیا ہے۔ خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اے انسانو! جیسے باپ کے نزدیک بیٹی پیدا ہوتی ہے، ویسے ہی سورج سے شفق ظاہر ہوتی ہے۔ جیسے خاوند اپنی بیوی میں حمل قائم کرتا ہے ویسے بیٹی کی منزل یا مثل موجود شفق میں سورج کرن نامی نطفہ قائم کرتا ہے۔ اس حمل سے دن نامی پیدا ہوتا ہے۔
اس ترجمہ سے صاف ثابت ہے کہ ا س وید منتر میں باپ اور بیٹی کی مجامعت کی تعلیم دی گئی ہے۔ پِتا کا ترجمہ اُتپّن کرتا، یعنی پیدا کرنے والا باپ اور دوہتا کا ترجمہ کنیا، یعنی بیٹی ہی کیا ہے اور دونوں باپ بیٹی کی مجامعت سے بیٹا پیدا ہونا تسلیم کیا ہے، لیکن پردہ ڈالنے کی نیت سے باپ سے مراد