کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 284
اُم المومنین حضرت ز ینب رضی اللہ عنہا کے نکاح پر اعتراض اور اس کا الزامی جواب سیرت: جعلی بیٹے کی جورو سے نکاح کرنے کی شرع کا موقعہ اور موجب زینب کو ننگی دیکھ کر اس پر آپ کی شہوت کا بھڑکنا۔ اگر یہ موقعہ، جس کو دیکھ کر آپ سبحان اللہ پکار اٹھے، ہاتھ نہ آتا تو یہ شرع کب ایجاد ہوتی اور اسی شہوت کے جواز کے لیے یہ شرع بنائی، جو سورۃ احزاب کے رکوع ۵ میں مسطور ہے؟ (ص:۲۶) بصیرت: یہ بہتان اور سفید جھوٹ کسی آپ جیسے مخالف کی متعصبانہ طبع کا نتیجہ ہے۔ قرآن اور کتبِ احادیث موجود ہیں ، آؤ اور ان سے نکالو۔ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اس لغو کہانی کو کوئی شخص باسناد صحیح ثابت نہیں کر سکتا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پھوپھی کی بیٹی تھی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جوان ہوئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو زید سے نکاح ہونے سے پہلے کئی دفعہ دیکھا۔ تعجب سے سبحان اللہ تو اس وقت کہا جاتا ہے کہ جس عجیب چیز کو پہلے نہ دیکھا ہو اور اس پر یکایک نظر جا پڑے۔ بخلاف حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے حضرت زید سے، جس کو عام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا کہا کرتے تھے، نکاح کرایا۔ بحالیکہ اس وقت عرب میں پردہ کا رواج بھی نہ تھا اور یہ بعد میں ہوا۔ الحاصل کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوشیدہ نہ تھیں ۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آپ کا ایک غلام تھا، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرزند کی سی شفقت کیا کرتے تھے، جس کی و جہ سے عام لوگ اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا کہنے لگے۔ جب اس نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکمِ الٰہی اس سے نکاح کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح سے ثابت کر دیا کہ کسی کو صرف زبان سے بیٹا کہنے سے حقیقی بیٹا نہیں بن
[1] بائبل میں بھی نکاح کے وقت حق مہر کا ثبوت ملتا ہے، بلکہ اس سے بھی آگے کہ ’’اگر کنواری لڑکی سے زنا کیا اور اس کا والد اسی لڑکے سے شادی پر راضی نہیں تو لڑکی کے لیے نقدی دینی پڑے گی۔‘‘ کیا مسیحی حضرات اسے کنجری بازی کہنا گوارا کریں گے؟ لکھا ہے: ’’اگر کوئی آدمی کسی کنواری کو جس کی نسبت نہ ہوئی ہو، پھسلا کر اس سے مباشرت کرے تو وہ ضرور اسے مہر دے کر اس سے بیاہ کرے، لیکن اگر اس کا باپ ہرگز راضی نہ ہو کہ اس لڑکی کو اسے دے تو وہ کنواریوں کے مہر کے موافق اسے نقدی دے۔‘‘ (خروج ۲۲: ۱۶۔ ۱۷) سیدنا یعقوب علیہ السلام کی بیویاں رافل اور لیاہ اپنے نکاح کے حوالے سے کہتی ہیں : ’’کیا وہ ہمارا والد ہم کو اجنبی کے برابر نہیں سمجھتا، کیوں کہ اس نے ہم کو بھی بیچ ڈالا اور ہمارے روپے بھی کھا بیٹھا۔‘‘ (پیدایش: ۳۱: ۱۵) ساؤل بادشاہ نے اپنی بیٹی سے سیدنا داود علیہ السلام کی شادی کرنی تھی، حق مہر معاف کر دیا، فقط اپنے دشمنوں کے سو آدمیوں کی کھلڑیاں طلب کیں ۔ (۱۔ سموئیل ۱۸: ۲۵) [خاور رشید]