کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 28
1۔ پہلے اِڈیشن کے وقت اس کتاب کا نام ’’تقدیس سید الابرار‘‘ تھا، جو ۱۹۲۹ء کو ۴۷ صفحات پر شائع ہوا۔
2۔ ترمیم و اضافے کے ساتھ دوسری بار اس کی طباعت اگست ۱۹۶۶ء کو ’’سیرت سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘کے نام سے عمل میں آئی۔
3۔ بعد ازاں مولف رحمہ اللہ نے اس میں مزید اضافے کیے اور ہندو مصنف کی کتاب ’’کلام الرحمن‘‘ کا جواب بھی دیا، جو اسی کتاب کا زیرِ نظر تیسرا اِڈیشن ہے۔[1]
3۔ نجات الاسلام:
افغانستان کا ایک باشندہ سلطان محمد خاں پال مسلمان سے عیسائی ہو گیا تو اس نے ایک رسالہ ’’میں مسیحی کیوں ہوگیا؟‘‘ کے عنوان سے لکھا، جس میں سلطان محمد نے ذکر کیا کہ مجھے اُخروی نجات کی راہ صرف عیسائیت میں نظر آئی ہے، اس لیے میں مسیحی ہوگیا ہوں ۔ اس رسالے کا جواب شیخ الاسلام مولانا ثناء اﷲ امرتسری نے ’’تم عیسائی کیوں ہوئے؟‘‘ کے نام سے دیا تھا، جو ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ امرتسر (اکتوبر ۱۹۲۸ء) میں شائع ہوا اور بعد میں ۱۹۳۰ء کو کتابی شکل میں طباعت پذیر ہوا۔
بعد ازاں پادری سلطان محمد پال نے شیخ الاسلام امرتسری کے رسالے کا جواب ’’شیرافگن‘‘ کے نام سے لکھا[2] تو مولانا گکھڑوی رحمہ اللہ نے پادری سلطان محمد پال کے دونوں رسالوں ’’میں مسیحی کیوں ہوگیا؟‘‘ اور ’’شیرافگن‘‘ کو مدِنظر رکھتے ہوئے مذکورہ بالا کتابچہ ’’نجات الاسلام‘‘ تحریر کیا، جس میں نجات کی حقیقی راہ بتائی اور عیسائی مصنف کے مخالفانہ اعتراضات کا جواب دیا۔ مولف رحمہ اللہ نے پادری سلطان محمد کے اشکالات کو ’’سیئات‘‘جب کہ ان کے جوابات کو ’’نجات‘‘ کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ تمام ’’سیئات‘‘ پر نمبر شمار لگائے گئے ہیں ، جن کی کل تعداد ۲۷ ہے، گویا پادری سلطان محمد کی ۲۷ ’’سیئات‘‘ کی نشان دہی کر کے اسے راہِ نجات بتائی گئی ہے۔
اس کتاب کے آغاز میں شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی کی رقم کردہ تقریظ ہے، جس کے آخر میں ’’یکم محرم الحرام ۱۳۸۱ھ مطابق ۱۵؍ جون ۱۹۶۱ء‘‘ کی تاریخ درج ہے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ
[1] لہٰذا بعض اہلِ علم کا یہ کہنا درست نہیں کہ ’’تقدیس سید الابرار‘‘ اور ’’سیرت سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ مولانا گکھڑوی مرحوم کی دو الگ الگ کتابیں ہیں ۔ دیکھیں : تذکرہ مولانا احمد دین گکھڑوی از مولانا محمد اسحاق بھٹی (ص: ۱۵۸، ۱۶۲)
[2] لہٰذا بعض حضرات کا یہ لکھنا درست نہیں کہ پادری سلطان محمد نے مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے رسالے کا جواب الجواب نہیں لکھا تھا۔ دیکھیں : تذکرہ ابو الوفاء از ملک عبدالرشید عراقی (ص: ۶۸۔ ۶۹)