کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 25
حدیث معروف کو، جس میں خفیف سا ضعف ہے اور مضمون کے لحاظ سے احادیث کے عین مطابق ہے، اس کو بموجب اصولِ محدثین بطور استشہاد و متابعت کے درج کیا گیا ہے۔ 3۔ فضائل پر سے شبہات کا ازالہ حتیٰ الامکان تحقیقی جواب سے کیا گیا ہے، مگر بعض مقامات اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ الزامی جوابات سے اس لیے پرہیز کیا گیا ہے کہ یہ مخالفین کی تردید میں نہیں ۔ 4۔ وہ فضائل جو روایات کاذبہ سے ثابت ہیں ، ان سے یہ مضمون کلیتاً منزّہ و مبرا ہے، کیونکہ وہ درحقیقت فضائل ہی نہیں ، بلکہ وہ کاذبین کا اختراع اور خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے۔ بعض ان میں سے ایسے ہیں جن میں عیسائیوں کی طرح غلو و مبالغہ پایا جاتا ہے اور قرآن و حدیث کے مخالف بھی ہیں ۔ 5۔ جس آیت سے فضیلت کا استدلال کیا گیا ہے، اس کو اس سے پیشتر کی آیت کے مضمون سے مناسبت اور ربط بھی دیا گیا ہے۔‘‘ قارئین مطالعہ کتاب کے دوران میں ملاحظہ کریں گے کہ مولف نے صرف فضائلِ نبویہ کو جمع و تحریر ہی نہیں کیا، بلکہ جا بہ جا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علوِ مرتبت کے خلاف اٹھائے جانے والے شبہات اور اشکالات کا بھی بہ خوبی ازالہ کیا ہے، چنانچہ کتاب کے مختلف صفحات پر بھی غیر مسلموں کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے اور آخر میں ایک مستقل مبحث میں عیسائیوں کی طرف سے ذکر کیے جانے والے نو عدد شبہات کا ازالہ کیا ہے۔ اس کتاب پر تین علماے دین بحر العلوم حافظ عبداﷲ صاحب روپڑی (۱۸۸۶۔ ۱۹۶۴ء) شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل صاحب سلفی (۱۸۹۵۔ ۱۹۶۸ء) اور مولانا محمد حنیف صاحب ندوی (۱۹۰۸۔ ۱۹۷۸ء) نے تقاریظ لکھی ہیں ۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ حافظ یوسف صاحب گکھڑوی (وفات ۱۹۸۰ء) کے زیرِ اہتمام سکول بک ڈپو گوجرانوالہ کی طرف سے ۱۶۔ ۳۰۔ ۲۰ سائز کے ۲۴۰ صفحات پر شائع ہوئی تھی۔ کتاب پر سنہ اشاعت درج نہیں ہے، البتہ شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل صاحب سلفی رحمہ اللہ کی تقریظ کے آخر میں ’’۸/۹/ ۵۰ء‘‘ کی تاریخ درج ہے۔ اسی طرح کتاب کا تعارف محترم عبدالغفور صاحب نے لکھا ہے، جس کے آخر میں ’’یکم رجب ۱۳۷۶ھ‘‘ [۱۹۵۷ء] کی تاریخ مرقوم ہے۔