کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 227
اسلامی جہاد پر مخالفین کے اعتراضات اور اُن کے جوابات سیرت: حرص دنیاوی بانیِ اسلام میں یہ صورت رکھتی ہے کہ دین کے بھیس میں دنیا پر مسلط ہونا بالکل صاف نظر آتا ہے، جیسا کہ آپ کا جنگ کرنا اور لڑائیاں مارنا اور اپنے پیروؤں کو بھی شوق دلانا۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ حرص بڑھتی گئی۔ لڑائیاں اور فساد کرنے کا حکم آتا گیا۔ لڑائیوں کے فوائد اور ثواب بیان کر کے اس شوق کو خوب ظاہر کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ عرب کے بادشاہ ہو گئے۔ (ص:۱۷۔ ۱۸) بصیرت: یہ بالکل افترا اور بہتان ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیاوی طمع یا حرص کے مغلوب ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مع اہل کے ایسی تنگ گزران نہ ہوتی، جس کا ذکر مشکاۃ کے ’’باب فضل الفقرائ‘‘ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل کو دو دن پے در پے جو کی روٹی سیر ہو کر کھانے کے لیے حاصل نہ ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال تک یہی حالت رہی۔[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کبھی مال جمع نہیں رہتا تھا۔ جب مال ہاتھ آ جاتا تو فوراً غربا اور مساکین کے مابین تقسیم کر دیتے۔ عرب پر حکومت کرنے کے باوجود بھی آپ دنیاوی حرص اور طمعِ دنیا کے تارک تھے۔ عبادت، زہد اور عمل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے نظیرعملی نمونہ تھے۔ اس حکومت میں آپ نے کوئی خزانہ جمع کیا اور نہ کوئی زینت ناک (خوبصورت) اور پختہ مکان بنایا، بلکہ مسجد کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچے حجرات تھے اور ان کو کبھی قفل نہ لگایا جاتا تھا۔ (ابن ہشام) مکان کے دروازے کو قفل لگانے کی اس وقت ضرورت پیش آتی ہے، جب اس کے اندر مال موجود ہو۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کے لیے زیورات بھی نہیں بنائے۔ بادشاہ ہو کر فقر اور مسکنت اختیار کرنا، عبادت، زہد اور تقوے میں ہر دم شغل رکھنا، دنیاوی حرصوں سے پاک اور
[1] جناب مسیح رحمہ اللہ نے بھی تورات کے کئی حکموں کو منسوخ کیا، مثلاً سچی قسم کھانے کی اجازت تھی، لیکن انھوں نے اس سے بھی منع کر دیا، پہلے قصاص اور بدلے کا حکم موجود تھا، لیکن انھوں نے بالکل اس سے روک دیا، پہلے حرام کاری کے علاوہ کسی اور سبب کی وجہ سے بھی خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا تھا، لیکن انھوں نے صرف حرام کاری والی صورت میں اجازت دی اور باقی صوتوں کو زنا کرنے اور کروانے والا قرار دیا۔ (انجیل متی: ۵: ۳۱۔ ۴۲) بقول بائبل: ’’سیدہ سارہ[ نسبی لحاظ سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پدری بہن تھیں اور ان کی آپس میں شادی ہوئی تھی۔‘‘ (پیدایش: ۲۰: ۱۲) جب کہ بعد میں ایسے بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کا ننگا جسم دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی اور جس نے ایسا کر لیا، انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ (احبار: ۲۰: ۱۷) [خاور رشید]