کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 199
عالی ذات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ضلالت اور ہدایت کی نسبت
سیرت:
سورۃ الضحیٰ کی آیت: ’’اور پایا تجھ کو بھٹکا ہوا پھر راہ سمجھائی۔‘‘ یہ گناہ گاری کی بڑی علامت ہے اور اس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی حالت کا حوالہ ہے۔
بصیرت:
آیت کے الفاظ یہ ہیں : ﴿وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی﴾ [الضحیٰ: ۷]
یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھولنے والا پایا، پس آپ کو سیدھے راستے پر چلایا۔ یہاں ضلالت اور ہدایت دونوں مقابلے پر ہیں ۔ ضلت اور ضلالت دونوں مصدر ہیں اور ضال جو اسم فاعل کا صیغہ ہے، اس سے مشتق ہے۔ حسبِ قاعدہ جو معنی مصدر کے ہوں ، وہی اس کے مشتقات میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ چونکہ لغت کے اعتبار سے ضلالت کے بہت سے معانی ہیں ، اسی طرح ہدایت کے بھی۔ عرفِ عام میں تو ضلالت گمراہی کو کہا جاتا ہے، جیسا کہ پادری صاحب نے پیش کیا ہے۔ پس جب ضلالت کی نسبت کسی کافر یا فاسق کی طرف ہو یا سبیل کا قرینہ، مثلاً ’’أضل سَبیلاً‘‘ ہو، تو اس صورت میں عرفِ عام کا مفہوم لیا جائے گا اور جب یہ کسی پاکیزہ ہستی کی طرف منسوب ہو تو اس کا وہی مفہوم لینا چاہیے، جو اس کی شان کے لائق ہو، جیسا کہ آیتِ مذکورہ میں ضلالت کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔ اس مقام پر گمراہی کا مفہوم تو مستحیل اور مشکل ہے۔
اب ہم لغت کی معتبر کتاب منجد سے اس کے معنی بیان کرتے اور آیت کاصحیح مطلب بیان کر دیتے ہیں ۔ پھر طرفہ یہ کہ اس کا مصنف بھی معترض کا بھائی، یعنی عیسائی مذہب کا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے: ’’الضلۃ الحیرۃ في الغیبوبۃ في خیر أو شر‘‘ یعنی ضلالت کے معنی غیب اور پوشیدگی میں حیران اور غمگین ہونے کے ہیں ، خیر میں ہو یا شر میں ۔
[1] یہ دلیل محلِ نظر ہے۔ میرے خیال میں یہ دلیل ہونی چاہیے کہ ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔۔۔ اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا۔ (یوحنا: ۱: ۱۔۱۴) مسیحیوں کے بقول خدا مجسم ہوا اور مسیح علیہ السلام کی صورت میں دنیا کے اندر آیا تو اگر وہ پہلے ہی کوئی جسم تھا تو مجسم کیسے ہوا؟ معلوم ہوا ان کے نزدیک خدا بغیر جسم کے ہے۔ واللّٰه أعلم بالصواب۔ [خاور رشید]