کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 152
طرح مقرر کی گئی ہیں ۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس طرح صفیں نہیں باندھتے جس طرح خدا کے نزدیک فرشتے صفیں باندھتے ہیں ؟ ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !فرشتے اپنے رب کے نزدیک کس طرح صفیں باندھتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے پہلی صفوں کو پورا کر لیتے ہیں اور برابر سیدھی صفیں باندھتے ہیں ۔ (مسلم، مشکاۃ، باب تسویۃ الصفوف)[1]
پہلی صفوں کو پورا کرنا اور سیدھی برابر رکھنا اور باہم مل کر کھڑا ہونا، ان میں کسی قسم کا خلل اور فاصلہ نہ چھوڑنا، خواہ وہ صفیں نماز کی ہوں یا جہاد کی۔ یہ خصوصیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو عطا کی گئی ہے۔ سابقہ انبیا علیہم السلام اور اُن کی امتوں میں یہ خصوصیت مفضلہ مفقود ہے۔
گیارھویں خصوصیت:
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خدا تعالیٰ نے مجھے سورۃ البقرۃ کی آخری آیات اس خزانے سے عطا کی ہیں ، جو عرشِ معلّیٰ کے نیچے ہے۔‘‘ (صحیح ابن خزیمہ اور نسائی) [2]
ان آیات میں ایسی دعا مذکور ہے، جن میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ امت محمدیہ پر ایسا بوجھ نہ ڈالے جسے وہ برداشت نہ کر سکیں ، وغیرہ۔
بارھویں خصوصیت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھے انبیا علیہم السلام پر اس وجہ سے بھی فضیلت دی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے پہلے اور پچھلے گناہوں ، یعنی کفار کے بہتانات کو بخش دیا۔‘‘ (مسند بزار) [3]
اس حدیث میں کفار کے ان بہتانات کی حکایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا اوراسلام کی تبلیغ شروع کر دی۔ چونکہ وہ کفار کے خلاف تھی، اس لیے انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کذاب، ساحر اور شاعر وغیرہ کہنا شروع کر دیا۔ یہ کفار کے پہلے بہتانات ہیں ، جن کا قرآن پاک میں
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۴۳۰)
[2] صحیح ابن خزیمۃ (۱/۱۳۲،۱۳۳) سنن النسائي الکبری (۵/۱۵)
[3] مسند البزار (۴۱۲۸۲)