کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 150
میں بکثرت پایا جاتا ہے، جیسا کہ آیت ﴿وَ اسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ﴾ [النساء: ۶۴] ’’مومنوں کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے بخشش طلب کرتے۔‘‘ سے ثابت ہوتا ہے۔
پانچویں خصوصیت:
پہلے نبی اپنی قوم کے لیے ہی خاص آیا کرتے تھے ، مگر میں تمام دنیا کے لیے نبی ہو کر آیا ہوں ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ساتھ ہی یہ بھی وارد ہے کہ میری ذات کے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔
چھٹی خصوصیت:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ میں جامع کلمات کے ساتھ بھیجا گیا ہوں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کلام لفظوں میں نہایت مختصر ہو اور اس کے معانی و مطالب بہت سے مفاہیم پر مشتمل ہوں ۔ قرآن مجید میں جامعیت بے مثل اور اعجازی طور پر پائی جاتی ہے، جیسا کہ اس کا ذکر ہم نے اپنی کتاب ’’برہان الحق‘‘ میں کر دیا ہے اور بخیال مصنف ’’رحمۃللعالمین‘‘ اور ابن رجب مصنف ’’شرح خمسین‘‘ (جامع العلوم والحکم) کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام قدسی نظام میں بھی جامعیت پائی جاتی ہے۔
ساتویں خصوصیت:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ نیند میں مشغول تھا، اس حالت میں میں نے اپنے تئیں دیکھا کہ زمین کے خزائن کی کنجیاں میرے ہاتھ میں رکھ دی گئی ہیں ۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ والی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھ کو دو خزانے ایک سرخ اور ایک سفید عطا کیے گئے۔ (مسلم، مشکاۃ،باب فضائل نبیّنا) [1]
یہ سات خصوصیات تمام انبیا علیہم السلام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و سرفرازی کی خبر دے رہی ہیں ۔ اب ہم کو اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ زمین کے خزانے خواب میں ملنے سے کیا مراد ہے؟ شارحین کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاے راشدین کے عہد میں جس قدر کفار پر فتوحات ہوئیں اور ان کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ آئے، اس خواب سے یہی مراد ہے۔
(نووي، شرح صحیح مسلم، کتاب الرؤیا) [2]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۸۱۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۲۳)
[2] شرح النووی (۱۵/۳۴،۳۵)