کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 149
فضیلت کی مثبت ہیں ۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ جس ذات میں اپنے ہم جنسوں کے علاوہ بھی خصوصیات مشرفہ پائی جائیں ، وہ ان سے برتر و افضل ہوتا ہے۔ جہاں خصوص پایا جائے، وہاں عموم بھی پایا جاتا ہے۔ پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خصوصیاتِ معظمہ میں ثبوت پایا گیا تو بالاولیٰ تمام پیغمبروں کے کمالات و محاسن کا عموم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل ہوا۔ پس اسے عموم و خصوص کی مثال سمجھنا چاہیے۔ پہلی خصوصیت: میں اگر ایک ماہ کی مسافت پر بھی ہوں تو دشمنوں پر میرا رعب طاری ہو جاتا ہے۔ اس کے نظائر کتبِ سیر و احادیث میں دیکھنے چاہییں ۔ دوسری خصوصیت: ساری زمین میرے لیے مسجد اور پاکیزہ بنائی گئی ہے، جہاں کوئی چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں نماز پڑھنی حرام ہے، حدیثوں میں اس کا ذکر ہے۔ پاکیزہ کا مطلب یہ ہے کہ عام حالت میں وضو و غسل پانی سے کیا جاتا ہے، لیکن پانی اگر نہ ملے تو انسان تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے۔ تیسری خصوصیت: میرے لیے غنیمت کو حلال کیا گیا ہے، جو پہلے کسی کے لیے حلال نہ تھی۔ بوقتِ جنگ جو مال دشمن پر فتح پانے کے بعد ہاتھ آئے، اسے غنیمت کہتے ہیں ۔ ساری زمین کا مسجد بنایا جانا، پانی نہ ملنے یا کسی اور عذر پر تیمم سے نماز ادا کرنا، غنیمت کا حلال ہونا پہلے انبیا علیہم السلام کی امتوں پر یہ احکام نازل نہیں ہوئے تھے، اس لیے ان کو سخت مصیبت و مشقت تھی کہ مسجد کے سوا وہ کسی جگہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔ اسی طرح بغیر پانی کے ان کو وضو اور طہارت حاصل نہ ہو سکتی تھی اور غنیمت کا مال بھی ان پر حرام تھا، بخلاف امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ اللہ تعالیٰ نے شفقت سے ان پر یہ سب چیزیں حلال کر دیں ۔ یاد رہے کہ شرعی احکام میں سہولت ملنے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ہے۔ چوتھی خصوصیت: مجھے شفاعت کا منصب عطا کیا گیا، جس کا ذکر پہلے گزرچکا ہے۔ لیکن فخرِعالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں بھی اپنی امت کے لیے استغفار و دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس قسم کی شفاعت کا ذکر قرآن و حدیث