کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 145
گا۔ یکایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام میرے پاس آ کر کہیں گے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !یہ سب نبی آپ کے پاس آ رہے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام امتوں کے درمیان فرق کر دے، یعنی ان کو الگ الگ گروہ بنا دے۔ پھر اللہ تعالیٰ جہاں چاہے ان کو پہنچا دے، ان کے لیے وہ جگہ بہت اچھی ہے، جہاں ان کو ٹھہرایا جائے گا۔‘‘ (مسند أحمد، تفسیر ابن کثیر، تحت آیت: مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) [1] اس حدیث میں بھی پل صراط سے گزرنے سے پیشتر کی شفاعت کا ذکر ہے اور تمام انبیا علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے پہلے شفاعت کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ ہاں بعد کو وہ، بلکہ مومنین، علما، شہدا اور ملائکہ سب حسبِ مراتب شفاعت کریں گے، جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن تین گروہ شفاعت کریں گے، پہلے انبیا، ان کے بعد علما، پھر شہدا۔‘‘ (ابن ماجہ، مشکاۃ، باب الحوض والشفاعۃ) [2] شفاعت کے مسئلے میں فخرِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو فضائل و تشریفات اور تکریمات ثابت ہوتے ہیں ، ان کے بیان کی حاجت نہیں ۔ ۵۔ خدا تعالیٰ شفاعت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام امت کو بخش کر اپنے وعدے کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا اقرار بھی کرایا جائے گا، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزر چکا ہے۔ سبحان اللہ! یہ مقام کیسا عظیم الشان و بلند مرتبہ ہے، جو تمام انبیا علیہم السلام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فائق کرتا ہے۔ ۶۔ فخرِعالم صلی اللہ علیہ وسلم ، دیگر انبیا علیہم السلام اور مومنین کی شفاعت قیامت کے دن صرف اہلِ اسلام مومنین موحدین کے لیے ہی ہوگی، اگرچہ وہ کبیرہ کے مرتکب اور ادنیٰ ایمان والے ہوں ، بخلاف جمیع کفار و مشرکین کے کہ وہ اس سے ہرگز نفع نہ اٹھاسکیں گے۔ فرمایا: ﴿فَمَا تَنْفَعُھُمْ شَفَاعَۃُ الشّٰفِعِیْنَ﴾ [المدثر: ۴۸]
[1] مسند أحمد (۳/۱۷۸) تفسیر ابن کثیر (۳/۷۵) [2] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۳۱۳) اس کی سند میں عنبسہ بن عبدالرحمن راوی احادیث گھڑا کرتا تھا، لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں : سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ، رقم الحدیث (۱۹۷۸)