کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 143
غضبناکی کی حالت میں اس کے اقربا میں سے اس کے ساتھ کلام کرنے کی وہی جرات کر سکتاہے جو اس کے ہاں سب سے زیادہ محبوب و حبیب ہو اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔ اس شفاعت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے افضل اور تمام آدمیوں کے سردار ہونا منکشف ہو جائے گا۔ ورنہ تمام آدمیوں کے سرتاج تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں بھی ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ)) [1] (أبو داؤد و کتاب السنۃ) ’’ میں آدم کی اولاد کا سردار ہوں ۔‘‘
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام انسانوں کا سرتاج ہونا علی الاطلاق مذکور ہے، جو آخرت اور دنیا کو شامل ہے۔ دنیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیا علیہم السلام کو بیت المقدس میں نماز پڑھانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیدالمرسلین اور امام اعظم ہونے کا ثبوت ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے سردار ہو گئے تو دوسرے آدمی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ادنیٰ ہیں ، ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرفراز ہونا بطریقِ اولیٰ ثابت ہے۔ اگر کوئی مذکورہ بالا حدیث کی بنا پر یہ شبہہ کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت آدم علیہ السلام کی ساری اولاد پر بے شک سرداری ہے نہ کہ حضرت آدم علیہ السلام پر، تو اس کا ازالہ یوں ہے کہ حدیث کے ترجمے میں گزر چکا ہے کہ قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں کے سردار ہوں گے، جن میں حضرت آدم علیہ السلام بھی شامل ہیں ۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محامدِ کاملہ اور حسنِ ثنا، جو بوقت شفاعت کریں گے، کے سبب خدا کی طرف سے ایک حمد کا جھنڈا عطا کیا جائے گا، حضرت آدم علیہ السلام اور سب انسان اس کے نیچے ہوں گے اور یہ امر ظاہر ہے کہ سپہ سالار ہی کے ہاتھ میں جھنڈا ہوتا ہے اور جتنے اس کے ماتحت ہوں ، سب اس کے تابع اور مطیع ہوتے ہیں ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کے دن میں حضرت آدم علیہ السلام کی ساری اولاد کا سردار ہوں گا، اس میں کوئی فخر نہیں اور حمد کا جھنڈا میرے ہی ہاتھ میں ہوگا اور کوئی فخر نہیں ، اس دن تمام پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام اور اس کے ماسوا سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور سب سے پہلا شخص میں ہوں گا جس سے زمین پھٹے گی، یعنی میں قبر سے زندہ کیا جاؤں گا اور کوئی فخر نہیں ۔‘‘(حدیث حسن، جامع ترمذي، کتاب التفسیر، سورۃ بني إسرائیل) [2]
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۲۷۸) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۶۷۳)
[2] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۱۴۸)