کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 142
دروازہ کھولے گا کہ اس سے قبل کسی پر نہیں کھولا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ سفارش کرنے کی اجازت دے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا جائے گا کہ سفارش کیجیے، سفارش قبول کی جائے گی۔ پس فخرِعالم صلی اللہ علیہ وسلم امتی امتی کہتے ہوئے سجدے سے سر اٹھائیں گے اور حکم ہوگا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ایسے آدمی جن کا حساب نہیں ہوگا، ان کو جنت کے داہنے دروازے سے داخل کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت، یعنی مقامِ محمود میں تین دفعہ پہلی بار کی طرح امت کی شفاعت کریں گے، حتیٰ کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ مگر وہ، یعنی مشرک، منافق جن کے لیے قرآنی حکم کے بموجب ہمیشہ دوزخ میں رہنا مقرر ہو چکا ہے، وہ اسی میں رہیں گے۔‘‘[1] (احادیثِ مذکورہ کا حوالہ تفسیر ابن کثیر تحت آیت مذکورہ، علاوہ ازیں صحاح ستہ اور مسند احمد، کتاب التوحید لابن خزیمہ، مشکاۃ، باب الحوض والشفاعۃ) تفسیر ابن کثیر تحت آیت: ﴿مَقَامًا مَّحْمُوْدًا﴾ اکثر احادیث شفاعتِ عظمیٰ کے متعلق مذکور ہیں ۔ جن کو ملانے سے شفاعت کا مسئلہ تواتر تک پہنچ جاتا ہے، جو قطعی علم کا فائدہ دیتا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم، باب اثبات الشفاعۃ میں ان احادیث کو متواتر لکھا ہے۔ اہلِ سنت والجماعت کا منہج بھی یہی ہے کہ شفاعتِ عظمیٰ برحق ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ مندرجہ بالا احادیث سے مندرجہ ذیل امور کا ثبوت ملتا ہے: ۱۔ شفاعت، امت کے لیے خدا سے بخشش کی دعا کر کے ان کو سختی اور عذاب سے نجات دلا کر جنت میں پہنچانے کا نام ہے۔ ۲۔ شفاعتِ عظمیٰ صرف فخرِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا حصہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی شخص کو شفاعت کی جرات نہیں ہو سکے گی۔ ۳۔ مقامِ محمود میں جا کر سجدے میں گرنا اور خدا تعالیٰ کو دیکھنا اور خدا کی بے نظیر محامدِ عالیہ اور حسنِ ثنا سے اس کے غضب کو فرو کرنے اور اس کی رحمت کو غالب کرانے، تمام امت کو جنت میں داخل کرانے، بلکہ ان لوگوں کو جو گناہوں کے سبب دوزخ میں ڈالے گئے تھے، جنت میں پہنچانے کی خصوصیاتِ معظمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی ہیں ، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی شریک نہیں ۔ حاکم کی
[1] مسند أحمد (۳/۱۴۴)