کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 141
ہیں ، ہم بنظرِ اختصارِ مضمون مع بعض مقامات کی تشریح کے ان کا خلاصہ درج کرتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں قیامت کے دن تمام انسانوں کا سردار ہوں گا اور اللہ تعالیٰ پہلے اور پچھلے مومنوں کو ایک میدان میں جمع کرے گا اور سورج زمین کے قریب ہوگا۔ پس انسانوں کو غم اور تکلیف اس قدر پہنچے گی کہ وہ اس کی برداشت کی قوت نہ رکھیں گے۔ ‘‘[1] حضرت انس رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت جو مسند احمد میں ہے، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سورج کی گرمی کی شدت کی وجہ سے آدمیوں کو اتنا پسینا آئے گا کہ ان کے منہ تک پہنچ جائے گا۔ اتنی گرمی اور پسینے کے باوجود مومنوں کو صرف اتنی تکلیف ہو گی، جتنی دنیا میں زکام کی حالت میں ہوتی ہے، لیکن کفار کو ہر طرف سے گرمی اور سورج کی تپش ڈھانپ لے گی، گویا وہ مرنے کے قریب ہیں ۔ پس مومنوں کو خدا تعالیٰ الہام کرے گا، پس وہ مشورہ کریں گے، کیوں نہ ہم کوئی شخص خدا کے ہاں سفارش کے لیے لے جائیں ، تاکہ خدا ہمیں اس جگہ کی تکلیف سے بچائے۔ پس وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے سفارش کی درخواست کریں گے۔ حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے: بے شک میرا رب آج ایسا غضب ناک ہوا کہ اس سے پہلے اتنا غضب ناک نہیں ہوا تھا اور اس کے بعد بھی ایسا غضبناک نہ ہوگا۔ پھر جنت سے پھل کھانے کی غلطی کو، جو ان سے سہواً ہوئی، یاد کرتے ہوئے سفارش کرنے سے انکار کر دیں گے۔ اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام ، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام ،اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام ، ان کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے غضب سے ڈرتے ہوئے اور ان غلطیوں کی وجہ سے جو دنیا میں ان سے سہوًا یا اجتہادًا وقوع پذیر ہوئی تھیں ، یاد کر کے سفارش کرنے سے انکار کر دیں گے۔ آخرکار پھر سب لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کریں گے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے گھر میں جو عرش کے نیچے ہے، جس کا نام مقامِ محمود ہے، تشریف لا کر خدا کو دیکھتے ہوئے سجدے میں گر پڑیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی محامد اور حسنِ ثنا کا الہام کرتا ہوا ایسا
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۱۶۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۹۴) مسند أحمد (۱/۴)