کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 140
راضی ہو چکے ہیں ؟ پس میں عرض کروں گا: اے خدا! میں راضی ہو چکا ہوں ۔‘‘
(کتاب التوحید، ابن خزیمۃ، باب ذکر إرضاء اللّٰہ نبیہ) [1]
تمام عطیوں سے بڑھ کر شفاعتِ کبریٰ کا عطیہ ہے، جس کو حاصل کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رضا کا اقرار کریں گے۔ دنیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی گناہ گار امت کا اس قدر غم و فکر رہتا کہ ان کی ہمدردی و غم خواری میں کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو جاری ہو جایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عطیے کا وعدہ دے کر بشارت دے دی کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کریں گے، جیسا کہ ذیل کی حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدا کے دربار میں بتوں کے بارے میں شکایت ہے: اے خدا!ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ارشاد ہے: اے اللہ! اگر تو ان کو عذاب کرے گا تو تیرے ہی بندے ہیں ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر زاری کرتے ہوئے دعا کی: اے اللہ! میری امت! اے اللہ! میری امت! اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، حالانکہ تیرا رب جانتا ہے۔ پس آپ اس سے دریافت کیجیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رونے کا سبب کیا ہے؟ پس جبریل علیہ السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو امت کے غم کی خبر دی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر جبریل علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ دیجیے کہ خدا فرماتا ہے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے بارے میں عنقریب راضی کریں گے، آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو گی۔‘‘
(مسلم، مشکاۃ، باب الحوض والشفاعۃ) [2]
دنیا میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنے کا وعدہ کیا گیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعتِ کبریٰ عطا کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم کو، جو امت کی خیرخواہی اور ہمدردی کی وجہ سے تھا، دور کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو جنت میں پہنچائے گا۔
مسند احمد اور صحیح بخاری و مسلم میں حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کی دو طویل حدیثیں
[1] کتاب التوحید لابن خزیمۃ (۱/۴۱۵)
[2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۰۲)