کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 139
وضاحت ہوتی ہے۔
1۔ یہ منظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دکھایا گیا۔
2۔ یہ بشارتِ مبارکہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیا علیہم السلام مع اپنی امتوں کے دکھائے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت سب سے زیادہ افضل و اعلیٰ تھی، جو باعتبار درجات کے تین گروہوں پر منقسم تھی۔ پہلا گروہ: ستر ہزار جو بلا حساب جنت میں جائیں گے اور وہ متوکلین ہیں ۔ دوسرا گروہ اہل ظراب اور تیسرا گروہ اہل الافق ہیں ۔ یہ دونوں گروہ اتنے لاتعداد اور بے شمار تھے، جن کی کثرت سے تمام انبیا علیہم السلام کی اُمتوں کے چہرے چھپ گئے۔
3۔ خدا تعالیٰ باوجود علم رکھنے کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کا استفسار کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دفعہ جواب دیتے ہیں کہ میں راضی ہو چکا ہوں ۔
مخفی نہ رہے کہ تمام انبیا علیہم السلام کے سردار اور افضل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی تمام انبیا علیہم السلام کی امتوں میں سے افضل ہونی چاہیے۔ پس ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمِّۃٍ﴾ ’’یعنی تم سب اُمتوں سے بہتر ہو۔‘‘ اس کی تصدیق کرتی ہے اور اس حدیث میں مع دیگر احادیث کے آفتاب تاباں کی طرح روشن ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تمام انبیا علیہم السلام کی امتوں میں سے افضل و اکرم ہے۔
4۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت دکھا کر راضی کرنا یہی آیت کے ساتھ اس کی مناسبت ہے اور قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی امت کی سفارش کریں گے۔
جامع البیان تحت آیت مذکورہ کے ہے کہ یہ آیت شفاعت کے حق میں ہے، قیامت کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی سفارش کریں گے اور اس کو شفاعتِ کبریٰ کہا جاتا ہے۔ حضرت محمد بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ آیت: ﴿وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ﴾ گناہ گاروں کی بخشش کی بشارت دینے میں اور اس کی بڑی امید دلانے میں : ﴿لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ﴾ ’’یعنی اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ سے بھی زیادہ ہے۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعتِ کبریٰ کا عطیہ ملے گا، جس سے بہت گناہ گار جہنم سے نجات پائیں گے۔ پھر آپ نے اپنے چچا محمد بن علی بن حنفیہ سے، انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا، حتیٰ کہ مجھے خدا پکارے گا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپ