کتاب: میں توبہ تو کرنا چاہتا ہوں لیکن؟ - صفحہ 87
جب تک وہ اپنے دشمن کی قید میں رہا وہ اسے طرح طرح کے دکھ پہنچاتا۔ حتٰی کہ بالآخر اسے جان سے مار ڈالنے کا ارادہ کرتا۔ اس حال میں جلد ہی وہ اپنے باپ کے گھر کی طرف متوجہ ہوتا تو وہ اپنے باپ کو اپنے قریب دیکھتا، اس کی طرف دوڑتا اور اپنے آپ کو اس پر ڈال دیتا اور اس کے سامنے پڑ کر یوں فریاد کرتا۔ اے میرے پیارے باپ ! اے میرے پیارے باپ، اے میرے پیارے باپ ! اپنے بیٹے کی طرف دیکھ اور اس چیز کو بھی جس میں وہ مبتلا ہے اور آنسو اس کے رخساروں پر بہہ نکلتے۔ اس نے اپنے باپ کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور اس سے چمٹ گیا اور اس کا دشمن اسے سختی سے بلا رہا تھا حتی کہ وہ اس لڑکے کے سر پر پہنچ گیا۔ جبکہ وہ اپنے والد سے چمٹا ہوا اور مضبوطی سے اسے پکڑے ہوئے تھا۔  آپ کا کیا خیال ہے کہ اس کا والد اس حال مین اسے دشمن کے حوالے کر دے گا اور خود ان دونوں کے درمیان سے نکل جائے گا؟ پھر آپ کا اس ذات کے متعلق کیا خیال ہے کہ جو اپنے بندہ پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنا ایک باپ یا ماں اپنے بیٹے پر مہربان ہو سکتے ہیں جب بندہ اپنے دشمن سے مفرور ہو کر اپنے پروردگار کی طرف بھاگا آتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے دروازے پر ڈال دیتا