کتاب: میں توبہ تو کرنا چاہتا ہوں لیکن؟ - صفحہ 85
سواری کہیں چلی گئی تھی۔ اس نے اسے ڈھونڈنا شروع کیا کبھی ایک بلندی پر چڑھتا تو اسے کوئی چیز نظر نہ آتی پھر کبھی دوسری بلندی پر چڑھ کر دیکھتا تو کہیں کچھ نظر نہ آتا۔ گرمی اور پیاس نے اسے نڈھال کر دیا۔ وہ خود اپنے آپ سے کہنے لگا : میں اب اسی جگہ جاتا ہوں جہاں سویا تھا وہاں جا کر سو جاؤں گا حتٰی کہ موت آ لے گی۔ چنانچہ وہ اس درخت کے پاس آیا اور اس کے سایہ تلے لیٹ گیا۔ وہ اپنی سواری سے مایوس ہو چکا تھا۔ اب کرنا خدا کا کیا ہوا، جب اس نے اپنا سر اٹھایا تو ناگہاں اس کی سواری اس کے پاس کھڑی تھی جس کی نکیل زمین پر گھسٹ رہی تھی اور اس پر زاد سفر یعنی خوردونوش کا سامان اسی طرح لدا ہوا تھا۔ چنانچہ اس نے اس کی نکیل پکڑ لی۔ گویا اللہ تعالیٰ مومن بندے کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے اپنی سواری اور زاد سفر مل گیا تھا۔  میرے بھائی ! خوب سمجھ لیجئے کہ گناہ سے سچی توبہ کرنے والے کے دل میں اللہ کے سامنے انکساری پیدا ہوتی ہے اور توبہ کرنے والوں کی آہ و زاری اللہ رب العالمین کو بہت محبوب ہے۔  مومن بندے کے گناہ ہمیشہ اسے اپنی نظروں سے گرا دیتے ہیں جس سے اس کے دل میں‌ انکسار اور ندامت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر وہ گناہ کے بعد نیکی کے بہت سے کام کرنے لگتا ہے۔ حتٰی کہ بسا اوقات