کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 89
کوئی بدعتی روایت حدیث میں مشہور ہوا ہو یا کسی نے شرعی احکام لینے مں کسی بدعتی کی اقتداء کی ہو۔[1] اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اس گروہ اسلام کا حصہ مکمل دیا ہے۔اور ان کو ہر قسم کی عزت دی ہے انہیں امتیازی حیثیت دی ہے انہیں اپنے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کی طرف ہدایت
[1] امام لالکائی نے جو کچھ کہا ہے یہ اس دور کی بات ہے کہ جس دور میں اسلام معزز اور غالب تھا، علم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ تھا بدعتیوں کے ہاتھ ابھی اس کو نہیں پہنچے تھے ۔البتہ ہم نے جس دور غربت میں بہت سے بدعتیوں کو قرآن کا قاری اور احادیث کے مدرس کے طور پر دیکھا ہے ۔مگر ہم نہ ڈرے نہ گھبرائے اس لئے کہ اس کی وجہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مطہرہ میں دیکھ لی تھی۔جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات کی خبر دی تھی کہ ان سے صرف وہ آدمی محفوظ رہ سکت اہے جسے اللہ اپنی رحمت کی حفاظت عطا فرمائے۔طلبہ علم شرعی کو ہر وقت چوکنا رہنا چاہیئے اور یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ دین کن لوگوں سے لے رہے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ لوگ اصاغر کے پاس علم تلاش کریں گے۔ابن المبارک نے اسے الزھد، (۶۱) اور الالکائی نے شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ (۱۰۳ )میں ابن الھیعہ کے واسطے سے بکر بن سوادۃ عن ابی امیہ الجمعی سے مرفوعا روایت کیا ہے۔ میں کہتا ہوں اس کی سند صحیح ہے اس لئے کہ ابن لھیعہ کی روایت جب عبادلہ کے ذریعے اور ان سے ابن المبارک روایت کرتے ہوں تو وہ صحیح ہوتی ہے ۔ابن المبارک کہتے ہیں" اصاغر سے مراد اہل البدعت ہیں اس کے لئے ایک شاہد بھی ہے جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہے اور وہ مرفوع کے حکم میں ہے اس لئے کہ ابن مسعود اپنی رائے اور اجتھاد سے نہیں بولتے۔اس کے الفاظ اس طرح ہیں: " لا یزال الناس بخیر ما اتاھم العلم من اصحاب محمد واکابر ھم فاذا اتاھم العلم من قبل اصاغرھم فذلک حین ھلکوا"ترجمہ:’’لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک ان کے پاس علم محمد کے صحابہ اور اکابر سے آئے گا جب ان کے پاس علم اصاغر سے آنے لگے گا تو یہ ان کی ہلاکت کا وقت ہوگا۔‘‘