کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 65
میں کہتا ہوں:کہ ان قیمتی آراء کو یاد رکھنا چاہیئے ان میں غور کرنا چاہیئے تاکہ وہ اشکالات ذھن سے محو ہو جائیں جو عام لوگوں کے ذھن میں مذکورہ احادیث میں تعارض کے بارے میں آسکتے ہیں۔یہ اشکالات عوام کے ذھنوں میں پیدا ہوں یا فقھاء کے باہمی اختلاف کی وجہ سے یا ان گمراہ لوگوں نے جان بوجھ کر پیدا کئے ہوں جو ان احادیث کا انکار کرتے ہیں اور جواز یہ بناتے ہیں کہ یہ احادیث خلاف واقعہ(خلاف حقیقت)ہیں۔اس لئے کہ ان کی رو سے جمہور امت مسلمہ جہنم میں جائے گی۔ان کے خیال میں جمہور امت اسلامیہ بدعات اور گمراہیوں کو دین کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں۔حالانکہ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جمہور امت کو فطرت سلیمہ(ان شاء اللہ)صحیح عقیدے کی طرف کھینچ لائے گی۔اسی لئے تو خلف کے مذاھب کے سر کردہ لوگ یہ تمنا کرتے تھے کہ ان کو موت توبہ کرنے والوں کے دین پر آئے۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ یہ طائفہ منصورہ اسی منہج پر کاربند ہو گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا تھا۔اس لئے کہ یہ طائفہ حق پر ہوگا اور حق وہی ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ تھے۔ تفرقہ پیدا ہونے سے پہلے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریقے پر ہو اگر چہ اکیلا ہی ہو وہ جماعت کہلائے گا۔ اس طرح فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کی مقاصد واضح ہو گئے۔جو مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ کتاب و سنت بفھم سلف الامۃ۔یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنا۔ ۲۔ امت کی وحدت کی طرف دعوت اس فہم کے مطابق اس لئے کہ یہی اللہ کی رسی کو تھامنا ہے،اور یہی طریقہ مناسب ہے۔اس امت کی گمشدہ عظمت کو باز یافت کرنے اور اس کی امیدوں کو عملی جامہ پہنچانے کا اس لئے کہ اس دین کی بنیاد فطرت پر ہے اور اللہ اپنا حکم مکمل کر کے رہتا ہے۔