کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 48
حالانکہ ان باتوں کا سلفی منہج میں کوئی دخل اور تعلق نہیں ہے اس لئے کہ سلفیت سے مراد ہے۔قدیم تہذیبوں کی آلائشوں اور فرقوں کی موروثی(نظریات و افکار)سے مکمل طور پاک خالص اسلام ایسا اسلام جس میں کتاب و سنت پر سلف صالحین کے فہم کے مطابق عمل ہوتا ہو۔جب کہ مذکورہ باتیں جو سلفیت کے بارے میں پھیلائی گئی ہیں یہ دراصل ان لوگوں کے خیالات ہیں جو اس پاکیزہ اور عمدہ لفظ سے متنفر ہیں جس کی جڑیں اس امت کی تاریخ میں صدر اول سے موجود ہیں۔جب کہ ان نفرت کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ لفظ(سلفیت)اس وقت کی ایجاد ہے جب اصلاحی تحریکوں کا آغاز ہوا تھا جن کے علمبردار جما الدین افغانی اور محمد عبدہ تھے اور یہ دور تھا مصر پر انگریز کے قبضے کا دور تھا۔[1]
[1] س کتاب میں مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سلف اپنے منہج میں علمی لحاظ سے استدلال و استنباط میں تہی دست تھے اس طرح اس مصنف نے ان کو ایسے ان پڑھ قرار دے دیا جو کتاب کا علم نہیں رکھتے صرف اپنی خواہشات و آرزؤں کے پیرو ہیں۔ ۲۔اس نے سلفیت کو ایک تاریخی مرحلہ قرار دیا ہے جو گذر چکا ختم ہو چکا اور اب اس کی واپسی ممکن نہیں۔صرف اس کی یادیں اور واپسی کی تمنا باقی رہی ہے۔ ۳۔اس مصنف نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ سلف کی طرف نسبت کرنا بدعت ہے۔اس نے ایسے کام کا انکار کیا ہے جو زمانے میں مشہور ترین عمل ہے اور جسے قومیں ایک کے بعد ایک اپناتی رہی ہیں۔ ۴۔اس نے سلف کے منہج کے بارے میں اس طرح بحث کی ہے کہ جس سے خود بخود ذھن اس طرح ہو جاتا ہے کہ خلف کا منہج صحیح ہے اور وہ خواہشات کی لغزشوں سے محفوظ ہے اس طرح اس مصنف نے تاریخی حقائق چھپانے کی کوشش کی ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خلف کے منہج کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسلامی شناخت تباہ ہوئی ہے اور منہج اسلامی تحلیل ہو گیا ہے۔  اس دعویٰ پر چند اعتراضات ہیں۔ ۱۔جس تحریک کی بنیاد جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ نے رکھی تھی وہ سلفیت نہیں تھی بلکہ وہ عقلی خلفیت تھی۔اس لئے انہوں نے نقل کے بجائے عقل کو فیصلہ کن قوت قرار دیدیا تھا۔