کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 20
یہی وجہ ہے کہ یہودی اور صلیبی اسلامی حکومت کو بیمار آدمی کہتے ہیں حالانکہ یہی تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا خواہشات کے جراثیم اور شبھات کی بیماری اسلامی حکومت کے کار پردازوں میں داخل کی ہے۔اور اب ان جراثیم اور بیماریوں نے بڑھنا شروع کر دیا ہے یہاں تک کہ اس کا اثر ان کے چھوٹے بڑے سب پر ہو چکا ہے۔لفظ الدخن جو حدیث میں وارد ہے اس کے بارے میں شارحین حدیث کی شروحات اگرچہ مختلف ہیں مگر حاصل سب کا ایک ہی ہے: حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں دخن حسد کو کہتے ہیں،کسی نے کہا ہے کہ یہ خیانت کو کہتے ہیں،کسی نے کہا ہے کہ دل کے بگاڑ کو کہا جاتا ہے،تینوں کا معنی قریب قریب ہے اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ شر کے بعد جو خیر آئے گا وہ خالص نہیں ہوگا اس میں گدلاہٹ ہوگی۔کسی نے کہا ہے کہ الدخن سے مراد دخان(دھواں)ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حالات مکدر رہیں گے۔کسی نے کہا ہے کہ الرخن سے مراد ہر ناپسندیدہ عمل ہے،ابو عبیدہ کہتے ہیں اس حدیث کی تفسیر دوسری حدیث سے ہو جاتی ہے۔دل اس حال پر نہیں لوٹیں گے جس پر تھے۔اصل میں دخن کہتے ہیں کسی جانور کے رنگ میں گدلاپن۔گویا مطلب یہ ہوا کہ لوگوں کے دل آپس میں ایک دوسرے کے لئے صاف نہیں ہوں گے۔‘‘[1] امام نووی نے شرح صحیح مسلم۲۳۶/۱۲۔۲۳۷میں ابو عبیدہ کا قول نقل کیا ہے۔امام بغوی شرح النسہ ۱۵/۱۵ میں لکھتے ہیں"فیہ دخن "یعنی اس میں خالص خیر نہیں ہوگا۔بلکہ اس میں میل اور اندھیرا ہوگا۔الدخن اصل میں کہتے ہیں جانور کے اس رنگ کو جو مائل بہ سیاہی ہو۔[2]
[1] فتح الباری 13/36 [2] شرح صحیح مسلم (12؍ 236۔237)، شرح السنۃ ، (15؍ 15)