کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 19
نہ ہو جاؤں۔میں نے پوچھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم جاہلیت اور شر میں تھے اللہ نے ہمیں یہ خیر(دین اسلام)دے دیا۔کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا،ہاں!میں نے پوچھا کیا اس شر کے بعد خیر ہوگا؟فرمایا:ہاں!اور اس میں فساد ہوگا،خرابی ہو گی۔میں نے پوچھا وہ خرابی کیا ہوگی؟فرمایا:ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنتوں کے بجائے دوسرے طریقے اپنائیں گے۔میرے راستے کے بجائے دوسرے راستے پر چلیں گے۔ان میں سے کچھ لوگوں کو تم جانتے ہو گے کچھ کو نہیں جانتے ہوگے۔میں نے پوچھا اس خیر کے بعد شرہوگا؟فرمایا:ہاں!جہنم کے دروازوں پر کھڑے پکارنے والے ہوں گے،جنہوں نے ان کی بات مان لی وہ اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔میں نے کہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں کچھ بتلائے؟ فرمایا:وہ ہماری قوم اور ہمارے ہم زبان ہوں گے۔میں نے پوچھا ایسے میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں اگر میں انہیں پالوں؟آپ نے فرمایا:مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑو اور ان کے امام کو۔میں نے کہا اگر مسلمانوں کی جماعت اور امام نہ ہو تو؟آپ نے فرمایا:ان تمام فرقوں سے الگ ہو جاؤ،اگرچہ تمہیں کسی درخت کی جڑ کے ساتھ ہی کیوں نہ چپک کر رہنا پڑے(یا درختوں کی جڑیں کیوں نہ چبانی پڑے)یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے اور تم اسی حالت میں ہو۔‘‘[1]
وہ مہلک زہر جس نے مسلمانوں کی قوت کا خاتمہ کر دیا ہے ان کی حرکت کو مفلوج کر دیا ہے ان کا استحکام چھین لیا ہے وہ کفار کی وہ تلواریں نہیں ہیں جو مسلمانوں ان کے ملکوں اور حکومتوں کے خلاف متحد ہو چکی ہیں۔بلکہ اس کی وجہ وہ ناپاک جراثیم ہیں۔جو سب آہستگی کے ساتھ اسلام کے جسم میں سرائیت کرتے رہے ہیں۔مگر وہ مسلسل اپنا کام کر رہے ہیں۔
[1] صحیح بخاری ، کتاب الفتن ،باب کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ ،حدیث رقم(5657)، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین ، حدیث رقم (3434)