کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 151
(ہر کوئی لیلیٰ سے وصال کا دعویدار ہے۔مگر لیلیٰ نے ان میں سے کسی کا اقرار نہیں کیا)۔ جس کا یہ گمان ہے کہ وہ مذہب اہل سنت والجماعت پر ہے تو اسے چاہیے کہ طریقہ اہلسنت والجماعت کی اتباع کرے اور اس کےمخالفین کو ترک کر دے،لیکن اگر محض اس کا ارادہ چھپکلی اور وہیل مچھلی کو یکجا کرنا ہوجیسا کہ بطور کہاوت کہا جاتا ہے،تویہ ناممکن ہے۔اسی طرح اہلسنت والجماعت اپنے مخالفین جیسے خوارج،معتزلہ اورحزبی(فرقہ پرستوں)کے ساتھ مجتمع نہیں ہوسکتے،جو انہیں دور حاضر کے مسلمان کہتے ہیں اور چاہیے ہیں کہ ان اہل عصر(زمانہ)کی گمراہیوں کو منہج سلف کے ساتھ جمع کردیں،پس یہ جاننا چاہیے کہ اس امت کے آخر کی اصلاح بھی اسی چیز سے ہو گی جس سے اس کے اول کی اصلاح ہوئی تھی۔ حاصل کلام یہی ہے کہ ان معاملات میں تمیز کرنا اور وضاحت لازم ہے۔ شیخ بکر ابو زید(رحمۃ اللہ علیہ)فرماتےہیں: اگر کہا جائے کہ سلف یا سلفی مسلک پر چلنے والے،تویہ نسبت سلف صالحین کی طرف سے یعنی تمام صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم)اورجنہوں نے بھلائی میں ان کی پیروی کی،ان سے الگ جو اپنی اہواء و خواہش نفس کی طرف مائل ہو گئے۔اور جو طریقہ نبوی پر ثابت قدم رہے انہوں نے اپنے سلف صالحین کی جانب نسبت کی تو انہیں سلف یاسلفیون کہا جانے لگا اور ان کی جانب نسبت سلفی ہوئی۔پس لفظ سلف سے مرادسلف صالحین ہیں اور یہ لفظ جب مطلقاً استعمال کیاجائے گا تو اس سے مراد وہ شخص ہے جو صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم)کے طریقے کی پیروی کرے خواہ وہ ہمارے زمانے میں ہی کیوں نہ ہو،اور اسی طرح کلمہ اہل علم ہے۔اس نسبت کی کوئی بھی تعریف و تفصیل کتاب وسنت سے باہر نہیں،اور یہ نسبت ایک لحظہ کے لیے بھی اولین مسلمانوں سے الگ نہیں ہوئی بلکہ یہ تو انہی کی طرف سے ہے اور انہی کی جانب منسوب ہے۔البتہ جو ان کی مخالفت کرے چاہے اسماً ہو یارسماً،تو اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں خواہ وہ ان کاہم عصر ہو اور ان کے درمیان ہی کیوں نہ رہتاہو۔ امام ذہبی(رحمہ اللہ)محمد بن بہرانی کے حالات کے بارے میں لکھتےہیں: وہ بہت دیندار،فیاض اور سلفی تھے۔(معجم الشیوخ:2؍ 280)