کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 15
(۸) دنیا کی اقوام میں امت اسلامیہ کا کوئی مرتبہ مقام اور اہمیت باقی نہیں رہی جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:((ولکنکم غثاء کغثاء السیل))تم سیلاب میں پانی میں تیرتے کچرے کی طرح ہوگے۔اس جملے سے مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں۔
الف۔ تیز سیلاب میں جو خس و خاشاک تیر رہا ہوتا ہے وہ پانی کے رحم و کرم پر ہوتا ہے جہاں پانی جاتا ہے وہ کچرا اور خس و خاشاک بھی ساتھ جاتا ہے(اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا)امت اسلامیہ کا بھی یہی حال ہے وہ کفار اقوام کے بہاؤ کے ساتھ بہہ رہی ہے۔یہاں تک کہ اگر اقوام متحدہ میں کوئی کوّا بول پڑتا ہو یا مجلس رلفتن(سلامتی کونسل)میں کوئی مکھی بھنبھناتی ہو تو یہ اندھے بہرے ہو کر اس کی آواز پر گر پڑتے ہیں اور اس آواز کو کتاب محکم سمجھنے لگتے ہیں(اس پر عمل کرنا فرض سمجھتے ہیں)۔
ب۔ سیلاب نے جو خس و خاشاک اٹھایا ہوتا ہے وہ بے فائدہ جھاگ ہوتی ہے جو کسی کو نفع نہیں دے سکتی۔یہی حالت امت مسلمہ کی ہے کہ اب وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی تاکہ یہ قوموں کی مقتدا و امام بن جائے اور وہ ذمہ داری ہے امر بالمعروف نہی عن المنکر۔
ت۔جھاگ بہت جلد خشک ہو کر نابود ہو جاتی ہے۔اسی لئے اللہ تبدیلی کرتا ہے اور اس کو لاتا ہے جو ذمہ داری نبھاتا ہو اور اس گروہ کو استحکام دیتا ہے جو دنیا میں لوگوں کو فائدہ دیتا ہو۔
ث۔ جس خاشاک کو سیلاب کا پانی اٹھائے پھرتا ہے وہ بے فائدہ چیزوں اور زمین کی گندی یا بے فائدہ اشیاء پر مشتمل ہوتا ہے۔یہی حال اکثر مسلمانوں کے افکار کی ہے کہ وہ مختلف فلسفوں سے اخذ کیا گیا مغلوبہ اور مختلف تہذیبوں کا پھوک ہے۔متعدد تمدنوں کی نقالی ہے۔
ج۔ سیلاب نے جو کچرا اٹھایا ہوا ہوتا ہے اسے یہ معلوم نہیں ہوتوا کہ میری منزل کہاں ہے اس لئے کہ وہ اپنے بارے میں کوئی اختیار نہیں رکھتا مجبور و بے بس ہوتا ہے۔یہی حال امت مسلمہ کا ہے۔اسے نہیں معلوم کہ اس کے دشمنوں نے اس کے لئے کونسا راستہ متعین کیا