کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 138
استدلال:رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو حکم دیا ہے کہ اختلاف کے وقت آپ کی سنت کو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی فہم کے مطابق اپناؤ۔اس حدیث میں ایک لطیف اور عمدہ نکتہ ہے وہ یہ ہے جب رسولؐ نے فرمایا کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت تو پھر فرمایا:عضوا علیھا،علیھما نہیں فرمایا یہ بتانے کے لئے کہ آپ کی سنت اور خلفاء کی سنت ایک ہی منہج ہے۔اور یہ اسی صحیح اور صریح فہم کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنانا صحابہ کی فہم کے مطابق اپنانا۔ ۱۳۔ ایک حدیث اس بارے میں وہ یہ بھی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کے منہج کی تعریف کی تھی اور فرمایا تھا "ما انا علیہ الیوم واصحابی"(کہ آج جس طریقے پر میں اور میرے صحابہ ہیں) سوال:اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ رسول اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی فہم وہ منہج ہے جس میں کہیں سے باطل کی آمیزش نہیں ہو سکتی لیکن اس بات کی کیا دلیل ہے کہ سلفی منہج ہی رسول صلی اللہ علیہ وسمل اور صحابہ کرام کی فہم ہے؟ جواب:اس کا جواب دو طرح سے دیا جا سکتا ہے ۱۔ ابھی جن مفاہیم کا ذکر ہوا ہے یہ نبوت اور خلافت راشدہ کے عہد کے بعد کے ہیں۔اس سے ثابت ہوا کہ جو گروہ اس راستے پر نہ چلا اس طریقے کی اتباع جس نے نہیں کی وہ اصل پر برقرار رہا اس لئے کہ پہلے والے کو بعد والے کی طرف نہیں بلکہ بعد والے کو پہلے والے کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ ۲۔ ہم امت کے تمام فرقوں میں ایسا کسی کو نہیں پاتے کہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی موافقت کرتا ہو سوائے سلف کی اتباع کرنے والے اہل الحدیث اہل سنت والجماعت کے۔