کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 13
وأهله)). فكان أبو إدريس الخولانى إذا حدث بهذا الحديث التفت إلى ابن عامر،فقال:من تكفل اللّٰه به فلا ضيعة عليه))
عبداللہ بن حوالہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:’’ تم مختلف لشکروں کی شکل اختیار کر لو گے،ایک لشکر شام میں ایک عراق میں اور یمن میں ہوگا،میں نے کہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے ایک پسند کر لیجئے۔آپ نے فرمایا تم شام کو لازم پکڑو،اور جو نہ جا سکے وہ یمن کے ساتھ مل جائے اور اس کا پانی پیئے۔اللہ نے شام اور وہاں کے رہنے والوں کا میرے لئے ذمہ لیا ہے،ربیعہ کہتے ہیں میں نے ابو ادریس سے سنا کہ یہ حدیث بیان کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جس کا ذمہ اللہ لے لیتا ہے تو وہ ضائع نہیں ہوتا(البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح کہا ہے،تخریج احادیث شام و دمشق)[1]
کیا امت اسلامیہ کی یہی حالت نہیں ہے کہ اس کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں مگر اختیار کسی کے پاس نہیں ہے؟ اپنے داخلی و خارجی معاملات میں کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتیں،یہ اپنے لئے قوت اور حمایت اور اپنا ملکی نظام کفار اقوام سے لیتی ہیں۔
(۶) کفار اقوام اب مسلمانوں سے نہیں ڈرتیں اس لئے کہ مسلمانوں کا رعب دنیا سے ختم ہوچکا ہے۔حالانکہ ایک وقت تھا کہ کفار اقوام کے دل مسلمانوں کے ہیبت سے کانپتے تھے۔شیطان کے گروہ پر لرزہ طاری رہتا تھا۔اس لئے کہ لرزادینے والا رعب کا اسلحہ ایسا تھا کہ کافروں کے دل اور ان کے قلعے اس سے کانپ اٹھتے تھے۔اللہ کا فرمان ہے:
﴿سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُوا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا﴾(آل عمران ۱۰۱)
ترجمہ:’’میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا بسبب اس کے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ اس کو شریک کر لیا ہے جس کی اللہ نے دلیل نازل نہیں کی۔‘‘
[1] (صحیح) فضائل الشام و دمشق للربعی حدیث رقم (2)، دلائل النبوۃ للبیہقی حدیث رقم (2594)، مسند احمد حدیث رقم(19465).