کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 128
اس بارے میں سوال کیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تھا کہ یہ صدقہ ہے جو اللہ نے تم پر کیا ہے اسے قبول کرو۔[1] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور یعلی بن امیہ دونوں صحابہ نے آیت سے یہ سمجھا تھا کہ نماز قصر خوف کے ساتھ مشروف ہے۔جب خوف ختم ہوا امن قائم ہو گیا تو اب نماز پوری پڑھنی چاہیئے۔یہ ہے دلیل الخطاب جسے مفہوم مخالفت کہتے ہیں۔جب عمر رضی اللہ عنہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسم سے دریافت کیا تو آپ نے عمررضی اللہ عنہ کو ان کی فہم پر برقرار رکھا البتہ یہ واضح کر دیا کہ یہاں یہ معتبر نہیں ہے اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف سے تم لوگوں کے لئے صدقہ ہے اسے قبول کرو۔اگر عمر رضی اللہ عنہ کی سمجھ صحیح نہیں ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابتداً اس کو برقرار نہ رکھتے اور پھر ان کے سامنے یہ توجیہ پیش کرتے۔کسی نے کہا ہے کہ توجیہ قبول کی فرع ہے۔ ((جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰهِ،يَقُولُ:أَخْبَرَتْنِي أُمُّ مُبَشِّرٍ،أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،يَقُولُ عِنْدَ حَفْصَةَ:«لَا يَدْخُلُ النَّارَ،إِنْ شَاءَ اللّٰهُ،مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ،الَّذِينَ بَايَعُوا تَحْتَهَا» قَالَتْ:بَلَى،يَا رَسُولَ اللّٰهِ فَانْتَهَرَهَا،فَقَالَتْ حَفْصَةُ:{وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا}[مريم:71]فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:قَدْ قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ:﴿ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا[مريم:72])) ۲۔ جابر رضی اللہ عنہ ام مبشر سے روایت کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے فرما رہے تھے،اصحاب الشجرہ جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی انشاء اللہ وہ جہنم میں نہیں جائیں گے۔حفصہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں نہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟ آپؐ نے اس کو جھڑک دیا تو حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آیت
[1] صحيح مسلم ، باب صلاة المسافرين و قصرها ، حديث رقم (1108)