کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 125
کو آزاد کرنے(کے بارے میں)اور یہ کہ کوئی مسلمان کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی وجہ سے کتاب و سنت میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی فہم بعد میں آنے والی پوری امت پر حجۃ ہے۔اسی لئے وہ زمین میں اللہ کے گواہ سمجھے گئے جیسا کہ ذیل کی آیت اس کی وضاحت کرتی ہے۔ ۴۔ ﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا(البقره:143) ترجمہ:" اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ ہوں" اللہ عزوجل نے انہیں بہترین اور عدول بنایا تھا وہ امت کے افضل ترین لوگ تھے۔اپنے اقوال،افعال اور ارادوں میں عادل ترین تھے اسی لئے وہ لوگوں پر گواہ بننے کے مستحق قرار پائے۔اسی لئے اللہ نے ان کو بلند مرتبہ دیا،شہرت دی،ان کی تعریف کی ان(کے اعمال)کو قبول فرمایا۔اللہ کے ہاں قابل قبول گواہ وہ ہوتا ہے جو علم اور صدق کے ساتھ گواہی دیتا ہےتاکہ وہ اپنی علم کی بنیاد پر حق کی خبر دے سکے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ(الزخرف:86)(ترجمہ:" مگر جس نے حق کے ساتھ گواہی دی اور وہ جانتے ہوں جب اللہ کے ہاں ان کی گواہی مقبول ہے تو بلاشبہ ان کی فہم دین بعد والوں پر حجۃ ہے اس لئے کہ اس آیت نے مطلقاً دلالت ثابت کر دی ہے۔امت میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے علاوہ کسی کو مطلقاً عدول قرار نہیں دیا گیا۔