کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 122
ترجمہ:تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے وجود میں لائی گئی ہے تم بھلائی کا حکم کرو گے برائیوں سے منع کرو گے اور اللہ پر ایمان لاؤ گے۔ اللہ نے اس امت کو تمام امتوں سے افضل قرار دیا ہے۔اب اس کا تقاضا ہے کہ یہ امت ہر حال میں صحیح راستے پر قائم رہے۔لہٰذا یہ امت کبھی صحیح دین سے نہیں بھٹکے گی۔اسی طرح اللہ نے یہ گواہی دی ہے کہ یہ امت امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرے گی۔اس سے لازم آتا ہے کہ ان کی فہم بعد میں آنے والوں پر قیامت تک حجت رہے گی۔ سوال:اگر کہا جائے کہ یہ خوبیان تو پوری امت کے لئے عام ہیں۔صحابہ یا ان کے بعد کے لوگوں(تابعین رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ)کے لئے خاص نہیں ہیں؟ جواب:صحابہ رضی اللہ عنہم ہی اولین مخاطبین ہیں اور اس میں بعد میں آنے والوں،ان کی تابعداری کرنے والوں کو قیاس ودلیل کی بنیاد پر ہی شامل کیا جا سکتا ہے۔جیسا کہ دلیل اول میں ہے۔اور اس کو عام تسلیم کرنے کے باوجود(عام تسلیم کرنا صحیح بھی ہے)۔صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ہی اس خطاب میں سب سے پہلے شامل ہونے والے ہیں۔انہوں نے بغیر واسطے کے سب سے پہلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو اخذ کیا ہے اور وہی وحی کے وقت موجود تھے۔لہٰذا دیگر کی بنسبت صحابہ اس حکم میں داخل ہونے کی زیادہ حقدار ہیں۔اس لئے کہ جو صفت اس آیت میں بیان ہوئی وہ دیگر لوگوں کی بنسبت صحابہ رضی اللہ عنہم میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ لہٰذا اس وصف کا ان میں مکمل طور پر موجود ہونا ان کو مدح و ستائش کا زیادہ حقدار بناتا ہے۔بنسبت اوروں کےمدح وستائش کا زیادہ حقدار بناتا ہے۔ ۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:((خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي،ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ،ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ،ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ))[1]
[1] اکثر کتب میں خیر القرون ہے مگر اس کے بجائے خیر الناس صحیح جبکہ وہ غیر محفوظ ہے