کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 118
یا فرقوں کے مناقضات سے متعلق جھگڑے ہیں اور اقوال کو نقل کرنے کی بے فائدہ طوالت ہے۔ ان میں سے اکثر اقوال باطل اور فضولیات ہیں جن سے انسان کی طبیعت اکتا جاتی ہے اور کوئی انسان انہیں سننا پسند نہیں کرتا۔کچھ اقوال ایسے بھی ہیں جن کا دین سے تعلق نہیں ہے نہ ہی ان میں سے کوئی قول عصر اول سے منقول ہے۔لیکن اب اس کا حکم تبدیل ہو گیا جب ایسی بدعتیں پیدا ہو گئیں جو قرآن و سنت کے مقتضیٰ کو تبدیل کر رہی ہیں،ان میں شبہات پیدا کر رہی ہیں۔ میں نے ان شبہات کو درست کیا اور ایسا کلما ترتیب دیا جو اس سے مطابقت رکھتا ہو اب ضرورت کی وجہ سے اس ممنوع۔یہ اس قابل بن گیا ہے کہ اجازت دی جا سکتی ہے۔ امام رازی اپنی کتاب اقسام للذاتہ میں لکھتے ہیں:میں نے علم کلام کی کتب اور فلسفہ کے منہج میں غور کیا ہے مگر میں نے اس کو ایسا نہیں پایا کہ کسی کی علمی پیاس بجھا کسے یا کسی کی تشفی کر سکے میں نے اس میں بہترین طریقہ قرآن کا پایا ہے کہ اثبات میں﴿إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ(فاطر:10)اس کی طرف پاکیزہ کلام چڑھتا ہے۔اور﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى(طہ:5)رحمان عرش پر مستوی ہے۔اور نفی میں﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ(الشورى:11)اس کی طرح کوئی شئی نہیں ہے۔جوبھی شخص میری طرح تجربہ کرے گا وہ بھی میری طرح معلومات حاصل کر لے گا۔ امام رازی نے یہاں جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے یہ تو قرآن کی وہ دلالت ہے جو بطریق خبر ہے۔ورنہ قرآن کی برہانی عقلی دلیل جس کی طرف قرآن اشارہ کرتا ہے اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔وہ عقلی سماعی دلیل ہوتی ہے