کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 112
حاصل بحث کی ہے۔فرماتے ہیں یہ متاخرین کیسے لوگ ہیں خاص کر اشارہ خلف سے ان متکلمین کی طرف ہے جن کا اس مسئلے میں اضطراب بہت زیادہ ہے۔اللہ کی معرفت اور ان لوگوں کے درمیان موٹا پردہ ہے۔[1] ان کی حالت سے واقفیت رکھنے والے نے ان کے بارے میں بتایا ہے کہ: لعمرى لقد طفت المعاهد كلها وسيرت طرفي بين تلك المعالم فلم أر إلا واضعاً كفَّ حائرِ على ذقنٍ أو قارعاً سِنَّ نادمِ ان کے تمام تر کوششوں اور محنتوں کے بعد ان کے ہاتھ خالی رہتے ہیں۔ یہ کف افسوس ملتے ہیں اور حیران و سرگرداں رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی تصنیفات اور اپنے اقوال کے بارے میں خود کیا رائے رکھتے ہیں یہ انہی میں سے ایک کی زبانی اس طرح منقول ہے۔ نهاية إقدام العقول عقال أكثر سعي العالمين ضلال عقلوں کا انتہائی قدم اور انجما ہے۔پھنس جانا، اور دنیا والوں کی اکثر کوششوں کا انجام ہے و أرواحُنا في وحشيةٍ من جسومنا وحاصلُ دنيانا أذي و وبال ہماری روحین ہمارے جسموں میں گھبرائی ہوئی ہیں اور ہماری دنیا کا ما حصل تکلیف اور وبال ہے۔ ولم نستفد من بحثنا طول عمرنا سوي أن جمعنا فيه قيل و قالوا [2]
[1] العقیدۃ الحمویۃ (1؍ 428) [2] یہ فخر الدین رازی کے اشعار ہیں جنہیں امام شاطبی نے الافادات والانشادات (84، 85)میں نقل کیا ہے اور نفح الطیب للمقری (5؍ 232) ، الاحاطہ فی اخبار عرناطۃ للسان الدین بن الطیب (2؍ 222) میں بھی منقول ہے ۔