کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 11
طرف ہوگے۔تمہارے دشمن کے دل سے اللہ تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری و بزدلی ڈال دے گا۔انہوں نے سوال کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کمزوری کیا ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔‘‘
یہ حدیث جس کمزوری کی نشاندہی کر رہی ہے یہ امت اسلامیہ کی موجودہ حالت پر مکمل روشنی ڈالتی ہے اور اس کی موجودہ بری حالت(کی وجوہات)کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔اس حدیث سے مندرجہ ذیل امور کی طرف اشارہ ملتا ہے:
(۱) اللہ کے دشمن ابلیس کا لشکر اور اس کے حواری اس گھات میں ہیں کہ کب امت اسلامیہ میں کمزوری آتی ہے اور کب یہ بیماری اس کی جسم کو لاغر کرتی ہے کہ ہم اس پر حملہ کر دیں اور اس کی جو چند سانسیں باقی ہوں انہیں بھی نکال دیں۔
کفار اور اہل کتاب کے مشرکوں کی یہ کوششیں اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھیں جب ابتداءً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اس وقت سے یہ کوششیں اور سازشیں شروع ہوئیں۔اس کی مزید وضاحت اس حدیث میں بھی آتی ہے جو آیت﴿وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا﴾کے بارے میں ہے جناب کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ(سماجی بائیکاٹ کے دنوں میں)ایک دن میں بازار میں جا رہا تھا کہ شام کے کسانوں میں سے ایک کسان(نبطی)جو مدینہ کے بازار میں کھانے پینے کی اشیاء(اناج)بیچنے آیا تھا یہ کہتا جا رہا تھا کہ مجھے کعب بن مالک کے بارے میں کون بتائے گا؟(کہ وہ کہاں ہے)لوگوں نے اسے اشارہ کر کے بتلا دیا تو وہ شخص میرے پاس آیا اور غسّان کا ایک خط مجھے دیا۔میں چونکہ لکھنا پڑھنا جانتا تھا چنانچہ میں نے خط پڑھا اس میں لکھا تھا۔ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ساتھی(محمدصلی اللہ علیہ وسلم)نے تم پر ظلم کیا ہے؟ اللہ نے تمہیں رسوا ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا اور نہ ضائع ہونے کے لئے۔ہمارے پاس آجاؤ،ہم تمہارا خیال رکھیں گے۔ہر مسلمان کو اس واقعہ پر غور کرنا چاہیئے۔سبق حاصل کرنا