کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 109
صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کسی کام کی طرف بلاتے تو یہ لوگ اجتماعی اور انفرادی ہر طرح سے اس کا م کی طرف لپکتے تھے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے فرمان پر ولیل و برہان کا مطالبہ نہیں کرتے تھے۔اسی لئے رسول کی سنتوں کی تطبیق،استدلال اور استنباط میں ان کی فہم دیگر تمام لوگوں کی فہم سے بہتر اور مقدم ہے۔ اس بارے میں ان کا منہج تھا جس نے ان کو چھوٹے چھوٹے راستوں پر بھٹکنے سے محفوظ رکھا تھا سی لئے کتاب و سنت کے نصوص میں ان کے طریقے کو تمام تر صفات،لوازمات کا حامل مکمل علمی منہج کہا گیا ہے۔ مثلاً:۱۔ اللہ نے اس کو "السبیل" کہا ہے۔جس کا معنی ہے ایسا راستہ جو مکمل طور پر واضح ہو جیسا کہ اس آیت میں﴿وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرً(النساء:115)جس نے ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کی اور سبیل المومنین(مومنوں کا راستہ)کے بجائے کسی اور راستے پر چلا تو ہم اس کو پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور اسے جہنم میں داخل کر دیں گے،وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ ۲۔ رسول نے اسے" السنۃ" کہا ہے۔جس کا معنی ہے ایسا راستہ اور طریقہ جس پر لوگ چلتے ہوں اس کی اتباع کرتے ہوں۔جیسا کہ عرباض بن ساریہ کی مذکورہ الصدر حدیث میں ہے۔ ۳۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصور کو محدود کر دیا اس طریقے تک جو آپ اور صحابہ کا تھا۔اب اگر یہ طریقہ واضح اور کشادہ نہ ہوتا تو اسے کس طرح اپنایا جا سکتا تھا۔اس لئے کہ غیر واضح ہونے کی سورت میں ایسا اختلاط پیدا ہو جاتا جس میں صحیح راستے کی تمیز ممکن نہ ہوتی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی غورو