کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 106
حاصل کلام یہ ہوا کہ آپ کے صحابہ آپ کی اتباع کرتے تھے آپ کی رہنمائی کو اپنائے ہوئے تھے۔انکی تعریف کتاب اللہ میں بھی کی گئی ہے۔ان کے مقتداء اور رہنما جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی تعریف کی ہے۔کتاب اور سنت ہی آپ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا راستہ اور طریقہ تھا۔صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ہی اس کے زیادہ لائق تھے اب جو بھی ان کے نقش قدم پر چلے گا وہ اس طائفہ ناجیہ میں سے ہوگا جو جنت میں داخل ہوگا۔انشاء اللہ۔ اس طرح عرباض بن ساریہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی احادیث میں تطبیق دی جا سکتی ہے کہ استدلال و استنباط میں صحابہ کا منہج ثابت کیا جائے۔اور اس کی صورت یہ ہے کہ جس نے بھی دونوں حدیثوں میں غور کیا ہے وہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ دونوں حدیثیں ایک ہی قضیہ کے بارے میں بات کرتی ہیں اور ان کا مقصد بھی یکساں ہے اور وہ ہے نجات کا راستہ اور زندگی گذارنے کادائرہ۔ جب امت مختلف راستے اختیار کر لے گی تو اس وقت صحیح اور حق فہم وہی ہوگی جس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ تھے۔احادیث کی تطبیق کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ ۱۔ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے فرمایا ہے کہ:((مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا وَإِيَّاكُمْ وض مُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةً))جو تم میں سے زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔تم نئے کاموں سے بچو یہ گمراہی کے کام ہیں۔ کیا بہت سارے فرقوں کا بننا وہ اختلاف کثیر نہیں ہے جس کا ذکر عرباض کی حدیث میں ہے؟ یہاں تک کہ ان فرقوں کی تعداد ستر سے بھی زیادہ ہے اور سب کے سب گمراہی اور بدعت کے راستے پر ہیں سوائے ایک جو اس روشن راستے پر