کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 104
جب انہیں قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دلیل نہیں ملتی تھی تو بحث،تحقیق اور مشورے کے بعد جو رائے سامنے آتی اس پر عمل کرتے تھے۔دلیل کی عدم موجودگی میں یہ رائے بھی آپ کی سنت میں سے ہے۔ سوال: اگر یہ کہا جائے کہ جب انہوں نے کسی معاملے میں رائے پر عمل کر لیا تو پھر لفظ سنۃ الخلفاء الراشدین کا کوئی فائدہ باقی نہ رہا؟ جواب: اس کا فائدہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دور نہیں دیکھا تھا،اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا زمانہ انہوں نے پایا،یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ دیکھا اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا بھی مگر ایک کام ایسا تھا جو آپ کے دور میں نہیں تھا اور وہ خلفائے راشدین کے دور میں سامنے آیا تو آپ نے اس حدیث میں خلفاء کی سنت کی طرف رہنمائی کی ہے تاکہ بعض لوگوں کے دلوں میں جو تردد اور شک ہو یا مختلف خیالات ذھن میں خلجان پیدا کرتے ہوں۔ان سب کا خاتمہ ہو جائے کم سے کم فائدہ اس حدیث کا یہ ہے کہ ان خلفاء کی جو رائے ہوتی ہے اگرچہ وہ بھی آپ کی سنت ہے دلیل کی عدم موجودگی میں وہ رائے دیگر لوگوں کی آراء سے بہتر ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی فعل کے کرنے یا نہ کرنے کی نسبت اپنی طرف اور اپنے صحابہ کی طرف کرتے تھے اس لئے کہ آپ قائد تھے اور آپ ہی اسوہ تھے اس حدیث کی تفسیر میں یہی بات میری سمجھ میں آئی ہے۔اور اس بات کو تحریر کرتے وقت مجھے کسی اہل علم کے قول کا علم نہیں تھا کہ میری موافقت میں کسی نے کچھ کہا ہو اگ میری رائے صحیح ہے تو یہ اللہ کی مہربانی ہے اور اگر غلط ہے تو یہ میری غلطی ہو گی اور شیطان کی طرف سے ہو گی جس کے لئے میں اللہ سے بخشش کا طلبگار ہوں۔