کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 101
ابو محمد کہتے ہیں کہ جب دونوں مذکورہ صورتیں باطل قرار پائیں تو پھر صرف تیسری صورت ہی باقی رہتی ہے اور وہ یہ کہ ہم وہ بات لیں جس پر ان کا اتفاق ہے ان کا اتفاق اسی پر ہوتا ہے جس پر دیگر صحابہ کا ان کے ساتھ اتفاق ہو اور نبی کی سنتوں کی اتباع اور ان کے مطابق ان کے رائے ہو۔اسی طرح جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم خلفائے راشدین کی سنتوں کی اتباع کا حکم کرتے ہیں تو یہ دو وجوہ سے خالی نہیں ہوتا۔ 1۔ یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی تھی کہ رسول کی سنتوں کے علاوہ سنتیں بنائیں یہ تو کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا اور جو اس کو جائز سمجھتا ہے وہ کافر مرتد ہے اس کی جان ومال حلال ہے۔اس لئے کہ دین یا تو واجب ہے یا غیر واجب یا حرام ہے یا حلال دین میں ان کے علاوہ کوئی اور صورت ہے ہی نہیں۔ اب اگر کوئی شخص اس بات کو جائز قرار دیتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے علاوہ خلفاء کی اپنی الگ سنتیں بھی تھیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلفا کے لئے جائز ہے کہ ایسی چیز کو حرام قرار دیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں آپ کی وفات تک حلال تھی اوریہ خلفاء ایسی چیز کو حلال قرار دیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دی تھی یا یہ خلفاء ایسی چیز کو واجب قرار دیں جسے رسول نے واجب نہیں کیا،یا کسی چیز کو ساقط کریں جسے نبی نے واجب کیا تھا،اور آپ کی رحلت تک وہ ساقط نہیں ہوئی تھی۔ ان تمام صورتوں میں سے جس صورت کو بھی کوئی شخص جائز قرار دے گا وہ باجماع امت بغیر کسی اختلاف کے مشرک کافر ہے۔یہ صورت بھی باطل قرار پائی۔