کتاب: میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا؟ - صفحہ 100
قرار دے گا۔جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿....الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ .....(المائده:3)" آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔اور فرماتا ہے:﴿تِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا(البقره:229)یہ اللہ کی(مقرر کردہ)حدیں ہیں ان سے آگے مت جاؤ۔فرماتا ہے:﴿وَلَا تَنَازَعُوا﴾(الانفال:46)آپس میں اختلاف و تنازعہ مت کرو۔ لہٰذا یہ صورت بھی باطل قرار پائی ہے،اس لئے کہ جو کچھ اس(دین کے مکمل ہونے والے)دن حرام تھا وہ قیامت تک حرام ہے اور جو اس وقت حلال تھا وہ قیامت تک حلال ہے اور جو کچھ اس دن واجب تھا وہ قیامت تک واجب ہے۔اس طرح اگر ہم اس صورت پر عمل کرتے ہیں تو ایک خلیفہ کی بات کو لینا ہو گا دوسرے کی بات کو چھوڑنا ہوگا۔لہٰذا ایسی صورت میں ہم ان کی سنتوں کی تابعداری کرنے والے نہ ہوئے۔ ہم نے مذکورہ حدیث میں(بظاہر)پائے جانے والے اختلاف کا خلاصہ پیش کیا۔دیگر لوگوں نے بھی جو چاہا لیا اور جو چاہا چھوڑ دیا۔یہاں مجھے اندلس کا وہ مفتی یاد آیا ہے جو جاہل تھا اس کی عادت یہ تھی کہ وہ اپنے ساتھ دو آدمی رکھتا تھا اور فتوی دیتے وقت مسئلے کا مدار انہیں دونوں آدمیوں پر ہوتا تھا اور پھر ان کے فتویی ان دونوں کے دستخطوں کے نیچے یہ عبادت لکھ کر اپنا دستخط کرتا تھا"اقول کما قال الشیخان" ایک فتوی میں دونوں اشخاص کا اختلاف ہو اس کے باوجود مفتی صاحب نے یہی عبادت لکھ دی کہ جو کچھ شیخین نے کہا ہے میں بھی وہی کہتا ہوں۔کسی نے بتایا کہ شیخین نے تو اختلاف کیا ہے؟ مفتی نے کہا میں بھی ان کے اختلاف کے ساتھ اختلاف کرتا ہوں۔