کتاب: ماہ ربیع الاول اور عید میلاد - صفحہ 9
للعالمین ہیں ، لہٰذا انکی آمد پر سب سے زیادہ خوشی منانی چاہیے ۔ وضاحت : اولاً: اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے ۔ہاں اس سے پچھلی آیت میں نزول قرآن اور نزول ہدایت کا ذکر ضرور ہے ۔ ثانیا:اس آیت میں جس فضل ورحمت کا تذکرہ ہے عمرفارق رضی اللہ عنہ نے اس سے مراد کتاب وسنت کو بتلایا ہے ۔ملاحظہ ہو: عَنْ أَیْفَعَ بْنَ عَبْدٍ قال لَمَّا قَدِمَ خَرَاجُ الْعِرَاقِ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَرَجَ عُمَرُ وَمَوْلًی لَہُ، فَجَعَلَ عُمَرُ یَعُدُّ الْإِبِلَ، فَإِذَا ہِیَ أَکْثَرُ مِنْ ذَلِکَ، وَجَعَلَ عُمَرُ یَقُولُ: الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَجَعَلَ مَوْلَاہُ یَقُولُ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، ہَذَا وَاللّٰهِ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَرَحْمَتِہِ، فَقَالَ عُمَرُ: کَذَبْتَ، لَیْسَ ہُوَ ہَذَا، یَقُولُ اللّٰهُ تَعَالَی:﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا﴾یَقُولُ:بِالْہُدَی وَالسُّنَّۃِ وَالْقُرْآنِ، فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا، ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ، وَہَذَا مِمَّا یَجْمَعُونَ ایفع بن عبدکہتے ہیں کہ جب عراق کاخراج عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیاتوعمرفاروق رضی اللہ عنہ اپنے ایک غلام کے ساتھ نکلے،عمرفاروق رضی اللہ عنہ اونٹوں کاشمارکرنے لگے وہ بہت زیاد ہ تھے،عمرفاروق رضی اللہ عنہ کہنے لگے :’’اللہ کاشکر ہے‘‘ ۔اوران کا غلام کہنے لگا:’’اے امیرالمؤمنین ! اللہ کی قسم یہ اللہ کافضل اوراس کی رحمت ہے‘‘۔تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:’’تو نے غلط کہا ،ایسا نہیں ہے ،اللہ تعالی فرماتاہے:(کہہ دیجئے !کہ اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے ساتھ،پس اسکے ساتھ وہ خوش ہوجائیں ،)یعنی ہدایت ، سنت اورقران سے خوش ہوجائیں ،اس لئے اسی ہدایت ، سنت اورقران سے خوش ہو،اوریہ (ہدایت اور قرا ن وسنت ) تمہاری جمع کردہ چیزوں سے بہترہے ۔اوریہ (ہدایت اور قرا ن وسنت ) تمہاری جمع کردہ چیزوں سے بہترہے‘‘۔[حلیۃ الأولیاء:۵/۱۳۳]۔ ثالثا: لغت عرب میں فرحت ، خوشی محسوس کرنے کو کہتے ہیں ، خوشی یا جشن منانے کو نہیں ۔خوش ہونا اور چیز ہے، اور خوشی منانا یا جشن منانا اور چیز ہے ۔ ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ مثلاً للہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں غزوئہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے منافقین کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللّٰهِ ﴾[۹/التوبۃ:۔۸۱]۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے ساتھ غزوہ تبوک پر جانے کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پیچھے رہنے والے