کتاب: ماہ ربیع الاول اور عید میلاد - صفحہ 16
سے نجات ،موسی علیہ السلام کی فتح ہے ،اسی طرح فتح مکہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم فتح ہے ،لیکن اس مماثلت کے باوجود بھی فتح مکہ کے د ن ایساکوئی اہتمام جائز نہیں ہے ،توپھریوم پیدائش جس کااس حدیث سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اس کاجواز اس حدیث سے کیونکر نکل سکتاہے ؟ ثالثاً:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشورآء کاروزہ رکھنے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ اس دن موسی علیہ السلام کی فتح ہوئی ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں شروع ہی سے عاشورآء کاروزہ رکھتے چلے آرہے تھے ،البتہ جب مدینہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہواکہ یہود بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کاتاکیدی حکم صادر فرما دیااور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو یہ حکم بھی منسوخ ہوگیاالبتہ اس کے استحبا ب کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی رکھا [بخاری :-کتا ب الصوم :باب صیام عاشورآء،نمبر2002 اور2004] معلوم ہواکہ عاشورآء کے روزہ کی اصل وجہ موسی علیہ السلام کی فتح نہیں تھی البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روزہ کی فضیلت میں یہ بات بھی شامل کرلی تھی ۔ رابعاً:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے مشورے پریہ تعلیم بھی دی کہ یوم عاشورآء کے ساتھ ساتھ ایک دن کاروزہ اوررکھاجائے تاکہ یہود کی مشابہت نہ ہو،[مسلم:کتاب الصیام:باب أی یوم یصام فی عاشورآء، 1334] غور کیجئے کہ جب اس حدیث میں مذکوراصل سنت ایک دن کی نہیں ہے تواس حدیث سے یک روزہ عید میلاد کاثبوت کہاں سے نکل سکتاہے جس کااس حدیث سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے ۔ خامساً:دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکور ہ حدیث میں جواصل تعلیم ہے وہ ہے عاشورآء کے دن روزہ رکھنا،لیکن افسوس ہے کہ میلاد منانے والوں نے بڑی بے دردی سے اس سنت کاگلاگھونٹ دیاہے ، چنانچہ جب محرم میں عاشورآء کایہ دن آتاہے تو یہ لوگ اس دن روزہ رکھنے کے بجائے کھانے پینے کا کچھ زیادہ ہی اہتمام کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو پکڑپکڑ کرشربت پلاتے ہیں ،اور اس دن انہیں یہ حدیث یاد نہیں آتی ،بلکہ یاددلانے پربھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتے ،لیکن حیرت ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں یہی حدیث ان کی نظر میں بہت اہم ہوجاتی ہے ،حالانکہ اس مہینے سے اس حدیث کاکوئی تعلق ہی نہیں ہے!سوال یہ ہے کہ جن کی نظرمیں مذکورہ حدیث کی اصل تعلیم قابل عمل نہیں ہے وہ اسی حدیث سے دیگر چیزیں ثابت کرنے کی جرأت کیسے کرتے ہیں ۔ سادساً:مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے ،عہد نبوی ،عہد صحابہ اور اس کے بعدکے ادوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں ’’عیدمیلاد ‘‘کی دلیل نہیں ہے ۔