کتاب: ماہ ربیع الاول اور عید میلاد - صفحہ 14
٭ غلط فہمی : کہاجاتاہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے دن روزہ رکھتے تھے اور اس بار ے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اسی دن میری پیدائش ہوئی ہے اور اسی دن مجھے رسالت ملی ہے ۔ وضاحت : أولاً: اس حدیث سے عید میلاد کے جوازکے بجائے اس کی تردید ثابت ہوتی ہے ،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھاہے اوراگریہ عید کادن ہوتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگزہرگزروزہ نہ رکھتے کیونکہ عید کے دن روزہ رکھناحرام ہے[بخاری:-کتاب الصوم:باب صوم یوم الفطر،نمبر1990] معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش کے دن روزہ رکھاہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کادن ’’عیدمیلاد‘‘ یاکسی بھی طرح کی عیدکادن نہیں ہوسکتا۔ ثانیاً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کی تاریخ(9یا12ربیع الاول)کونہیں بلکہ ولادت کے دن (پیر) کوروزہ رکھاہے ،خواہ اس دن کوئی بھی تاریخ ہویایہ دن کسی بھی ہفتہ یاکسی بھی مہینہ میں ہو ، لہٰذا جوشخص پورے سال کوچھوڑکرصرف ایک مہینہ اور اس میں بھی صرف ایک ہی ہفتے اور اس میں بھی صرف ایک ہی دن کواہمیت دیتاہے توگویاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اصلاح کررہاہے اوریہ بہت بڑی جسارت ہے ۔ ثالثاً:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں پیرکے دن روزہ رکھنے کی دو وجہ بتلائی ہے ،ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی دن پیداہوئے اوردوسری یہ کہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کورسالت ملی ،یہ دونوں چیزیں ایک ہی دن واقع ہوئی ہیں لیکن دونوں کی تاریخ الگ الگ ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت 9یا12ربیع الاول کوہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کورسالت21/رمضان کوملی، لہٰذا اگر پیدائش کی تاریخ کو’’عید میلاد‘‘ منانا چاہئے تورسالت کی تاریخ کو’’عید رسالت‘‘ بھی مناناچاہئے بلکہ اس پرتوزیادہ زوردیناچاہئے کیونکہ رسالت ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کاسبب ہے نیز اس کااقرار ہمارے کلمہ کاایک حصہ بھی ہے ! اوراگر ’’عید رسالت ‘‘منانادرست نہیں تو’’عید میلاد‘‘ منانابھی غیردرست ہے۔ رابعاً:آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف پیرہی کاروزہ علیحدہ طورپرنہیں رکھتے تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جمعرات کابھی روزہ رکھتے تھے ،لہٰذا سنت کے آدھے حصے کواہم سمجھنااور دوسرے آدھے کوفراموش کردیناسنت رسول کو بدلنا ہے اوریہ ناجائزہے ۔ خامساً:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر کے دن روزہ رکھنے کی یہ وجہ بھی بتلائی ہے کہ اسی دن بندوں کے اعمال رب کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں [ترمذی :کتا ب الصوم:ماجاء فی صوم الاثنین والخمیس،نمبر747 صحیح]