کتاب: ماہ ربیع الاول اور عید میلاد - صفحہ 11
٭ غلط فہمی :
کہاجاتاہے کہ ابولہب کے مرنے کے بعد اس کے کسی رشتہ دار نے اسے بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا تیراکیاحال ہے ؟ابولہب نے کہا:تم سے جداہوکر میں نے کوئی راحت نہ پائی سوائے اس کے کہ مجھے پیر کے دن انگوٹھے اورشہادت کی انگلی کے بیچ سے کچھ پینے کومل جاتاہے بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ یہ چیز دودھ اورشہد تھی ۔
وضاحت :
أولاً:یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہیں :
(۱)پہلی وجہ یہ ہے کہ اس روایت کوعروہ نے بیان کیاہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایاکہ انہیں یہ روایت کہاں سے ملی ؟ اور کس سے سنا؟لہٰذا یہ روایت منقطع یعنی ضعیف ہے ۔
(۲)دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ روایت قرآ نی بیان کے خلاف ہے کیونکہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ اور اس کی انگلیاں صحیح سلامت ہیں بلکہ کوئی چیز پینے کے بھی قابل ہیں ،جب کہ قرآن کابیان ہے کہ﴿ تبت یدا أبی لھب ﴾ [مسد:1/111 ]۔
مولانااحمدرضاصاحب اس آیت کاترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’تباہ ہوجائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہوہی گیا‘‘[کنزالایمان:ترجہ سورہ مسد ،آیت 1 ص] ۔
اور پیرمحمد کرم شاہ سجادہ نشین اس آیت کاترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ٹوٹ جائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اوروہ تباہ وبرباد ہو گیا‘‘[ضیاء القرآن:ترجہ سورہ مسد ،آیت 1 ]۔
غور کیجئے کہ جب قرآنی بیان کے مطابق ابولہب کے دونوں ہاتھ تباہ وبرباد ہوچکے ہیں تو پھراسے دودھ اورشہد پینے کے لئے ہاتھ اور انگلیاں کہاں سے نصیب ہوگئیں ۔اب کس کابیان صحیح ہے مذکور ہ روایت کایاقرآن مجید کا؟؟؟
(۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ روایت شرعی احکام کے خلاف ہے کیونکہ شریعت کی نظر میں بعض جرائم ایسے ہیں کہ ان کاارتکاب کرنے والے شخص کے سارے اعمال برباد ہوجاتے ہیں اور اسے کسی بھی عمل کاکوئی فائدہ نہیں ملتا،
٭ مثلاًشرک اتنابڑاجرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے بارے میں فرمایا:
﴿اگر فرضاًیہ حضرا ت بھی شرک کرتے توجوکچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے﴾[انعام:88/6]۔