کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 99
ہے تو ’’ب‘‘’’الف‘‘ سے ایک سور روپے فی شیئر کے حساب سے وہ شیئرز خرید کر مارکیٹ میں ایک سو چھ میں فروخت کردے گا۔اس طرح اسے پانچ سو روپے آپشن فیس ادا کرنے کے بعد ایک سوروپے کا فائدہ ہو جائے گا۔جبکہ’’الف‘‘ کو ایک صد کا نقصان ہو گا۔ 2۔شیئر کی قیمت کم ہو کر نوے روپے رہ گئی ہے تو اس صورت میں ’’ب‘‘’’الف‘‘ سے شیئرز نہیں خریدے گا کیونکہ مارکیٹ میں اس کی قیمت گر چکی ہے۔اگر اسے شیئرز سے دلچسپی ہوئی بھی تو وہ’’الف‘‘ سے ایک سو میں خریدنے کی بجائے مارکیٹ سے نوے روپے کے حساب سے خریدے گا۔کیونکہ اس طرح اس کا نقصان آپشن فیس تک ہی محدود رہے گا۔جو کہ پانچ سو روپے ہے اور یہی پانچ سو’’الف‘‘ کا منافع ہے۔ 3۔شیئر کی قیمت میں اضافہ تو ہوا ہے مگر آپشن فیس پانچ روپے سے کم۔مثلاً تین روپے اضافہ ہو گیا ہے، تب بھی اختیار کا خریدار’’ب‘‘وہ شیئرز خریدلے گا۔اگرچہ اس صورت میں اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا تاہم اس کا خسارہ کم ہو جاتا ہے، کیونکہ نہ خریدنے کی صورت میں پوری آپشن فیس رائیگاں جاتی ہے جبکہ خریداری کی صورت میں صرف تین سو روپے کا نقصان ہے۔ خریداری اختیار(Call Option)لینے کا دوسرا مقصد قیمتوں میں ممکنہ اضافے سے پیشگی تحفظ اورمتوقع کمی سے فائدہ اٹھانا ہے، یعنی خریداری اختیار احتیاطی تدبیر کے طور پر لیا جاتا ہے۔اس کی مثال یوں ہے۔ ’’الف‘‘ کے ذمہ ایک ہزار امریکی ڈالر قرض ہے جو اس نے تین ماہ بعد ادا کرنا ہے۔ڈالر کی موجودہ قیمت 80روپےہے۔’’الف‘‘ اس کشمکش میں ہے کہ وہ ابھی ڈالر خریدلے یا ادائیگی کے موقع پر خریدے۔کیونکہ اگر وہ ابھی خرید لیتا ہے اور ادائیگی تک اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے تو اس کا نقصان ہے کیونکہ اس نے ڈالر مہنگے داموں خریدا ہوا ہے۔اور اگر اس وقت نہیں خریدتا تو ممکن ہے ادائیگی تک اس کی قیمت بڑھ جائےاور اسے مہنگے داموں خریدنا پڑے، یہ خسارے کا سودا