کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 92
اس پر پابندی لگادی، کیونکہ اس میں یہ اندیشہ بھی تھا کہ تاجر قافلے والوں کی ناواقفیت سے فائدہ اٹھا کر سستے داموں نہ خریدلیں۔اور اگر کوئی مالک تاجر پر اعتماد کر کے اپنا مال فروخت کردے اور وہ منڈی میں پہنچ کر یہ محسوس کرے کہ تاجر نے جو قیمت دی ہے وہ صحیح نہیں،حقیقی قیمت یہ ہے تو اس کو یہ اختیار ہو گا کہ چاہے تو بیع باقی رکھے اور چاہے تو منسوخ کردے۔چنانچہ آپ کا فرمان ہے: "لاَ تَلَقَّوْا الْجَلَبَ، فَمَنْ تَلَقَّاهُ فَاشْتَرَى مِنْهُ، فَإِذَا أَتَى سَيِّدُهُ السُّوقَ، فَهُوَ بِالْخِيَارِ" ’’قافلے والوں سے آگے جا کر نہ ملو۔جس نے آگے جا کر مال خرید لیا تو جب مال کا مالک بازار پہنچے تو اس کو(معاملہ فسخ کرنے کا) اختیار ہو گا۔‘‘[1] علمائے احناف خیار غبن کے قائل نہیں، وہ کہتے ہیں جو شخص بازار میں جائے اس کا فرض ہے کہ مارکیٹ کا ریٹ معلوم کر کے علی وجہ البصیر بیع کرےاگر اس نے مارکیٹ ریٹ معلوم کئے بغیر بیع کرلی اور بعد میں معلوم ہوا کہ اس کو دھوکہ لگا ہے تو اس کا ذمہ داروہ خود ہے اس کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔یہ رائے متذکرہ بالا حدیث کے خلاف ہے۔خود حنفی علماء بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ حدیث خیار غبن کی مضبوط ترین دلیل ہے، ہمارے پاس اس کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ہے۔چنانچہ معروف حنفی عالم مولانا تقی عثمانی اس کی تشریح میں لکھتے ہیں۔ ’’یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی (مال لانے والے) کو جو اختیاردیا یہ خیار مغبون کے سوااور کچھ نہیں۔اس حدیث کا کوئی اطمینان بخش جواب شافعیہ اور حنفیہ کے پاس نہیں ہے۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ متاخرین حنفیہ نے اس مسئلہ میں امام مالک کے قول پر فتوی دیا۔‘‘ ’’علامہ ابن عابدین(شامی) درالمختار میں فرماتے ہیں کہ اج کل دھوکہ بازی بہت عام ہوگئی ہے لہٰذا ایسی صورت میں مالکیہ کے قول پر عمل کرتے ہوئے مغبون کو اختیار
[1] ۔صحيح مسلم باب تحريم تلقي الجلب۔