کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 90
اٹھائے اور اس میں خیار کی شرط طے کر لے تاکہ اس حیلے کے ذریعے قرض کے بدلے فائدہ حاصل کرے۔‘‘[1] بیع کی وہ اقسام جن میں فروخت کی گئی چیز اور اس کے معاوضہ پر وقوع بیع کے مقام پر ہی قبضہ شرط ہے، جیسے گندم کی گندم،سونے کی سونے کے عوض بیع اور کرنسی کی خریدو فروخت ہے، یا وقوع بیع کے وقت مکمل قیمت کی ادائیگی ضروری ہے جیسا کہ بیع سلم میں ہے وہاں بھی خیار شرط کی گنجائش نہیں ہے۔چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "أن البيوع التي يشترط فيها التقابض في المجلس كالصرف وبيع الطعام بالطعام أو القبض في أحد العوضين كالسلم لا يجوز شرط الخيار فيها" ’’بیع کی وہ صورتیں جن میں دونوں طرف سے موقع پر قبضہ شرط ہے، جیسے کرنسی کی خریدو فرخت، یا غلے کی غلے کے عوض بیع ہے۔یا مکمل قیمت کی پیشگی ادائیگی ضروری ہے۔جیسا کہ بیع سلم میں ہے، ان میں خیار شرط جائز نہیں۔‘‘[2] علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بیع کی جن اقسام میں وقوع بیع کے جگہ پر ہی قبضہ شرط ہے جیسے بیع صرف(کرنسی کی خریدوفروخت)بیع سلم اور ان اجناس کی باہم بیع ہے جن کا کمی کے ساتھ باہمی تبادلہ سودہے ان میں خیار شرط نہیں ہے۔کیونکہ ان کا مطلب ہے کہ فریقین کے جداہونے کے بعد ان کے درمیان کوئی تعلق باقی نہ رہے جبکہ خیار شرط کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے درمیان (خیار کی مدت تک)تعلق باقی رہے گا۔‘‘[3]
[1] ۔المغني ج 7 ص 486۔ [2] ۔روضة الطالبين ج 1 ص 439۔ [3] ۔المغني ج 7 ص 488۔