کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 79
امر تسری رحمہ اللہ اور حافظ عبداللہ رحمہ اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کا موقف بھی یہی ہے کہ ادھار میں زائد قیمت رکھی جا سکتی ہے۔[1] ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ قرآن حکیم کی آیت﴿ وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ’’اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘سے پتہ چلتا ہے کہ سوائے ان شکلوں کے جن کی حرمت قرآن و حدیث میں بیان کردی گئی ہے خریدو فروخت کی تمام صورتیں جائز ہیں چونکہ قرآن کی کسی آیت یا حدیث نبوی سے یہ واضح نہیں کہ ادھار میں زائد قیمت لینا غلط ہے اس لیے یہ جائز ہے۔ جن علماء کے نزدیک نقد اور ادھارکی صورت میں علیحدہ علیحدہ قیمت رکھنا جائز ہے وہ ان روایات سے استدلال کرتے ہیں۔ "عَنْ أبي هريرة قَالَ: - نَهَى رَسُولُ اَللّٰهِ - صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ" ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع سے منع فرمایا ہے۔‘‘[2] "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، فَلَهُ أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا " ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ایک بیع میں دو بیع کرے اس کے لیے کم قیمت ہے یا سود۔‘‘[3] ان حضرات کے خیال میں’’ایک بیع میں دو بیع‘‘ کا مطلب نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق ہے لیکن اگر اس کی تشریح میں محدثین کے اقوال کو سامنے رکھا جائے تو یہ مفہوم درست معلوم نہیں ہوتا۔چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: " وقد فسر بعض أهل العلم قالوا بيعتين في بيعة أن يقول أبيعك هذا
[1] ۔فتاوي نذيريه ج 2،ص 162۔الروضة الندية ج 2 ص 89۔فتاويٰ ثنائيه :ج2 ص 365۔فتاوي اهل حديث ج 2 ص 263۔264۔ [2] ۔ترمذي:كتاب البيوع باب ماجاء في النهي عن بيعتين في بيعة۔ [3] ۔سنن ابي داود:باب فيمن باع بيعتين في بيعة۔