کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 77
قیمت مجہول ہونے کی ایک شکل یہ ہے کہ چیز خریدتے وقت قیمت کا تذکرہ ہی نہ ہو اور دوسری صورت یہ ہے کہ تذکرہ تو ہو مگر اس طرح کہ فریقین میں سے کسی کو متعین قیمت کا علم نہ ہو۔مثلاً یوں کہا جائے کہ میں فلاں چیز کو اس کی بازاری قیمت پر خریدتا ہوں یا اس قیمت پر خریدتا ہوں۔جو اس پر درج ہے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی بازاری قیمت یا اس پر درج شدہ قیمت کیا ہے۔چنانچہ علامہ بہوتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ " فإن باعه برقمه أي ثمنه المكتوب عليه وهما يجهلانه أو أحدهما،لم يصح للجهالة " ’’اگر اس کو اوپرلکھی ہوئی قیمت پر بیچے جبکہ وہ دونوں یا ان میں سے ایک بھی لکھی ہوئی قیمت سے نا واقف ہو تو قیمت مجہول ہونے کی بنا پر بیع صحیح نہیں ہوگی۔‘‘[1] اسی طرح یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ جس قیمت پر فلاں شخص نے فروخت کی ہے یا جس قیمت پر لوگ فروخت کررہے ہیں اسی قیمت پر میں آپ کو بیچتا ہوں جبکہ فریقین یا خریدار اس قیمت سے واقف نہ ہو یا کہنا کہ جو قیمت آپ کو پسند ہو وہ دےدینا یا جس قیمت پر میں نے خریدی ہے اسی پر آپ کو بیچتا ہوں اور خریدار کو اس کی قیمت خرید کا علم نہ ہو۔کیونکہ ان صورتوں میں قیمت مجہول رہتی ہے جو نزاع کا باعث بن سکتی ہے جبکہ شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ قیمت پہلے طے ہونی چاہیے تاکہ جھگڑے کا خطرہ نہ رہے، تاہم اگر مذکورہ صورتوں میں مجلس عقد کی برخاستگی سے قبل حتمی قیمت کا علم ہو جائے تو پھر بیع جائز ہوگی۔ ہاں اگر کسی ایسی چیز کی بیع ہو رہی ہے جس کی مختلف اکائیوں اور ان کی بازاری قیمت میں فرق نہ پایا جاتا ہو تو ایسی صورت میں بازاری قیمت پر خریدوفرخت درست ہوگی کیونکہ اس صورت میں نزاع کا احتمال نہیں رہتا۔جن فقہاء نے بازاری قیمت کو میعار بنا کر خریدو فروخت کرنے کو جائز قراردیا ہے ان کی مراد بھی یہی ہے۔
[1] ۔الروض المربع ص 281۔