کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 75
حوالے کرسکتا ہو، جوچیز خریدار کے سپرد نہ کی جاسکتی ہو اس کو بیچنا جائز نہیں کیونکہ مشتری سے قیمت وصول پانے کے بعد چیز اس کے حوالے نہ کرنا صریح زیادتی ہے۔لہذا فضا میں موجود پرندے اور رسی تڑا کر بھاگے ہوئے جانور کو فروخت کرنا صحیح نہیں تاآنکہ مالک ان پر قابو نہ پالے کیونکہ اس حالت میں حوالگی ممکن نہیں۔چنانچہ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بھاگے ہوئے غلام کی بیع صحیح نہیں، خواہ اس کے مقام کے بارے میں علم ہو یا نہ ہو اور سی طرح بھاگے ہوئے اونٹ اور گھوڑے وغیرہ کی بیع بھی درست نہیں۔امام مالک، شافعی، ابوثور، ابن منذر اور احناف کا بھی یہی نقطۂنظر ہے۔‘‘ اس وجوہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایک تو یہ بیع غرر ہے اور دوسرا یہاں سپردگی ممکن نہیں لہذا یہ جائز نہیں۔‘‘[1] ایسے ہی اس پلاٹ اور مکان کو بھی بیچنا درست نہیں جس پر کسی نے ناجائز قبضہ کررکھا ہو یہاں تک کہ اسے ناجائز قابض سے واگزار کرالیاجائے کیونکہ ان صورت میں سپردگی ممکن نہیں ہے۔ہاں اگر غصب شدہ پ لاٹ یا مکان غاصب کو ہی فروخت کیاجائے یا کسی ایسے شخص کو جو غاصب سے قبضہ لینے کی طاقت رکھتا ہو تو ایسی صورت بیع جائز ہوگی تاہم قبضہ نہ ملنے کی صورت میں خریدار کو بیع منسوخ کرنے کا اختیار ہوگا، چنانچہ مشہور حنبلی فقیہ علامہ بہوتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "فإن باعه من غاصبه،أو قادر على أخذه صح لعدم الغررفإن عجز بعد فله الفسخ" ’’اگر غصب شدہ چیز غاصب کو یا ایسے شخص کو بیچے جو قبضہ لے سکتا ہو تو یہ بیع صحیح ہوگی کیونکہ اب غرر نہیں رہا،اور اگر بعد میں قبضہ نہ لے سکا تو اس کو منسوخ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔‘‘[2]
[1] ۔المغني ج 6 ص 289۔ [2] ۔الروض المربع 279۔