کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 73
"أرأَيْتَ إذا منَع اللّٰهُ الثَّمرةَ بمَ يأخُذُ أحدُكم مَالَ أَخِيهِ ؟" ’’بتاؤ تو سہی!اگر اللہ تعالیٰ نے پھل سے محروم کردیا تو تم میں سے کوئی کس چیز کے عوض اپنے بھائی کا مال لے گا۔‘‘[1] یعنی اگر آندھی یا کسی دوسری قدرتی آفت جس میں کسی انسان کا عمل دخل نہیں ہوتا کی وجہ سے پھل ضائع ہوگیا تو مشتری کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔گویا فروخت کنندہ نے اپنے بھائی کا مال ناحق لیا جو کہ حرام ہے۔ چونکہ اس روایت سے ضمناً یہ مسئلہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ اگر کسی نے صلاحیت پیدا ہونے سے قبل درخت پر لگا پھل فروخت کردیا اور پھر کسی آسمانی آفت سے پھل اس قدر ضائع ہوگیا کہ خریدار کو کچھ بھی حاصل نہ ہواتو بیچنے والے کو خریدار کی رقم واپس کرنا ہوگی اس لیے محدث کبیر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ پھلوں میں صلاحیت پیدا ہونے سے پہلے ان کی خریدوفروخت ہوسکتی ہے تاہم آفت زدگی کی صورت میں نقصان باغ کے مالک کا ہوگا۔چنانچہ انہوں نے صحیح بخاری میں اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان باندھا ہے: " إِذَا بَاعَ الثِّمَارَ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهَا، ثُمَّ أَصَابَتْهُ عَاهَةٌ فَهُوَ مِنَ البَائِعِ " ’’جب کوئی صلاحیت پیدا ہونے سے قبل پھلوں کو فروخت کردے تو آفت آنے پر نقصان کا ذمہ دار فروخت کنندہ ہوگا۔‘‘ شارح بخاری علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس عنوان میں امام بخاری کا رجحان اس طرف ہے کہ اگرچہ پھل کی صلاحیت ظاہر نہ ہوئی ہو پھر بھی اس کی بیع صحیح ہے تاہم انہوں نے صلاحیت سے قبل بیع کی صورت میں
[1] ۔صحيح بخاري :كتاب البيوع بَابُ إِذَا بَاعَ الثِّمَارَ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهَا، ثُمَّ أَصَابَتْهُ عَاهَةٌ فَهُوَ مِنَ البَائِعِ ۔