کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 47
ساتھ وزن کرکے فروخت کیا جائے۔‘‘[1] دوسری روایت فضالہ بن عبید فرماتے ہیں: ’’میں نے خیبر کے روز بارہ دینار کے عوض ایک ہار خریدا جس میں سونا اور کوڑیاں تھیں۔میں نے اس کو الگ الگ کیا تو اس میں بارہ دینار سے زائد سونا پایا۔میں نے اس بات کا تذکرہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا جب تک جدا جدا نہ کرلیا جائے بیچا نہ جائے۔‘‘[2] حتی کہ اگر ہم سونے یا چاندی کی بنی ہوئی کوئی چیز خریدیں تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے کہ اس کی قیمت میں اس کے وزن سے زائد سونا یا چاندی دینا جائز نہیں کیونکہ اس کی آڑ میں سودی مرض کو درآنے کا موقع مل سکتا ہے۔چنانچہ حضرت مجاہد کہتے ہیں: ’’ کہ میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا کہ ان کے پاس ایک سنار آیا اس نے کہا اے ابوعبدالرحمان(عبداللہ بن عمر عنہما کی کنیت) میں سونے کو ڈھالتا ہوں پھر زیادہ وزن پر فروخت کردیتا ہوں اور اپنے ہاتھ کی محنت کے بقدر بچا لیتا ہوں۔حضرت عبداللہ بن عمر نے ان کو منع کردیا تاہم وہ سنار بار بار مسئلہ پیش کرنے لگا اور عبداللہ بن عمر اسے منع کررہے تھے یہاں تک مسجد کے دروازے تک یا جس سواری پر سوار ہونا چاہتے تھے اس تک پہنچ گئے۔پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا دیناردینار اور درہم درہم کے بدلے میں تفاضل جائز نہیں ہے۔یہ ہمارے نبی کا ہم سے عہد ہے اور ہمارا تمہارے ساتھ عہد ہے۔‘‘[3] اس طرح كا ايك واقعہ حضرت عطاء بن یسار سے بھی مروی ہے۔وہ کہتے ہیں:
[1] ۔صحیح مسلم باب بیع القلادۃ فیھا خرز۔ [2] ۔حوالہ مذکورہ [3] ۔مؤطا امام مالك:كتاب البيوع ،باب بيع الذهب بالفضة تبرا وعينا۔