کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 45
٭ ایک گروپ کی دومختلف چیزوں کا تبادلہ جیسے سونے کا چاندی یا گندم کا چاول کے ساتھ باہم تبادلہ، اس میں کمی بیشی تو جائز ہے مگر ادھار جائز نہیں کیونکہ ادھار کمی بیشی سودی مزاج پر دلالت کرتی ہے۔وہ اس طرح جو شخص آج دس من گندم دے کر یہ طے کرتاہے کہ وہ ایک مہینہ بعد پانچ من چاول لے گا تو اس کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ایک ماہ بعد پانچ من چاول دس من گندم کے برابر ہوں گے۔اس نے دونوں کے درمیان تبادلے کی جو نسبت پیشگی طے کرلی ہے یہ سودی ذہنیت کا ہی نتیجہ ہے جبکہ اس کے برعکس نقد تبادلہ ہمیشہ بازاری نرح پر ہی ہوتا ہے اس لیے شریعت نے نقد تبادلے کو تو جائز قراردیا ہے لیکن ادھار کی اجازت نہیں دی جیسا کہ درج بالا حدیث میں نقد ونقد کی شرط سے واضح ہے۔ ٭ ایک گروپ کی کسی چیز کا دوسرے گروپ کی کسی چیز سے تبادلہ جیسے سونے کا گندم یا چاندی کا جو کے ساتھ تبادلہ کرنا، اس میں کمی بیشی بھی جائز ہے اور ادھار بھی۔ یہی حکم ان اشیاء کے باہمی تبادلے کا ہے جو حرمت کی علت میں ان چھ اشیاء کے ساتھ شریک ہیں۔اب ان اشیاء کی حرمت کی علت کیا ہے اس میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ سونے اور چاندی میں حرمت کی وجہ ان کا ثمن(زر) ہونا ہے، لہذا موجودہ دور کی کرنسی کو ان پر قیاس کیا جائے گا اور ایک ملک کی کرنسی کا اسی ملک کرنسی سے کمی بیشی کے ساتھ اور ادھار تبادلہ حرام ہوگاجبکہ باقی چار اجناس میں حرمت کی وجہ قابل غذا اور ذخیرہ ہونا ہے۔لہذا وہ تما م اشیاء غذائی اشیاء جنہیں ذخیرہ کیا جاسکتا ہے ان کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ ممنوع ہے۔ ظاہر ہے ایک قسم کی دوچیزوں کے درمیان تبادلہ ادنی اور اعلیٰ(Quality) کی بنیاد پر ہی ہوگا کہ ایک طرف عمدہ گندم ہوگی اور دوسری طرف کم تر۔لیکن کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ سود کا سبب بن سکتا ہے اس لیے شریعت نے یہ اصول بنادیا ہے یا تو کوالٹی کا فرق نظر انداز کرکے لین دین کیا جائے یاپھر اپنی چیز بیچ کر مطلوبہ چیز خرید لی جائے۔چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: